ایرانی صدارتی الیکشن اور یورپی امریکی ردعمل
14 جون 2009ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے امریکی صدر باراک اوباما کی واشنگٹن اور تہران کے مابین عشروں سے جاری کشیدگی میں کمی کی امیدیں کسی حد تک ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایران کے اندر احمدی نژاد کی ناقابل شکست کامیابی سے ملکی سلامتی کی صورتحال کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ احمدی نژاد کے مخالفین اور انکے حامیوں کی طرف سے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور سنگین احتجاج بحران کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کے لئے تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر روک تھام کی کوششوں میں مزید دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
واشنگٹن حکومت نے ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر خاصا محتاط رد عمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ یہ امید کر رہا ہے کہ الیکشن کے نتائج حقیقی معنوں میں ایرانی عوام کی خواہشات کی عکاسی کریں۔ کینیڈا کے دورے پر ہیلیری کلنٹن نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد سے ایران کے اندر چِھڑنے والے گرما گرم مباحثوں اور مکالمت کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ امریکہ، ایران کی تازہ ترین صورتحال کو باریک بینی سے مونیٹر کر رہا ہے۔ کلنٹن کا مزید کہنا ہے کہ عالمی برادری صبر و تحمل سے ایرانی عوام کے فیصلے کا انتظار کرے۔ امریکہ نے ایرانی صدارتی الیکشن پر کسی قسم کے تبصرے سے پرہیز کیا ہے۔
فوری رد عمل کے طور پر وائٹ ہاؤس کے ترجمان Robert Gibbs نے ایک بیان میں اسی قسم کا تاثر دیتے ہوئےکہا تھا کہ واشنگٹن حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے خاص طور سے الیکشن میں مبینہ طور پر ہونے والی بے ضابطگیوں کا۔
گزشتہ جمعے کو جس دن ایران میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہو رہا تھا اسی دن امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے پیشرو جارج بُش کی ایران پالیسی کو ترک کرتے ہوئے ایک بار پھر ایران کے ساتھ براہ راست مکالمت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ نیز انھوں نے اِس امر کا یقین دلایا تھا کہ اس سے قطع نظر کہ ایران کا اگلا صدر کون منتخب ہوتا ہے، انکی حکومت تہران کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سابق پالیسی امور کی مشیر Suzanne Maloney کے مطابق اوباما ایڈمنسٹریشن اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایرانی اربابِ اقتدار سے کلیدی اہمیت کے حامل مسائل پر دوٹوک بات چیت کرے ۔ مثلاً تہران کے جوہری پروگرام، افغانستان، عراق اور تیل ۔ Suzanne Maloney اور دیگر امریکی ماہرین نے ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج کی دُرستگی پر شکوک و شُبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان سب کا خیال ہے کہ اگر ایران میں الیکشن نتائج کے خلاف جاری پر تشدد احتجاج مزید سنگین شکل اختیار کرتا ہے تو تو باراک اوباما حکومت پر ایران کے عوام کے اندر جمہوریت کے ایجنڈا کے فروغ کے لئے فعال کردار ادا کرنے کے ضِمن میں غیر معمولی دباؤ پڑے گا۔
اِدھر یورپی یونین نے بھی ایران کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین کے صدر دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین اُمید کرتی ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد تہران حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے عالمی برادری کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام سے متعلق مکالمت کو آگے بڑھائے گی۔ یورپی یونین نے ایران سے عالمی تحدیدی تقاضے پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جرمن سیاسی حلقے کی طرف سے بھی ایران کے مبینہ طور پر بے ضابطگی پر مشتمل متنازعہ صدارتی الیکشن پر دوبارہ منتخب ہونے والے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماحول پسند گرین پارٹی کی سربراہ Claudia Ruth نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے صدارتی الیکشن کے نتائج سے ثابت ہو گیا ہے کہ انتخابات جمہوری نہیں تھے۔ وفاقی جرمن مخلوط حکومت کی دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اس پی ڈی کے ایرانی امور کے ماہر اور وفاقی جرمن پارلیمان میں ایران۔ جرمن گروپ کے سربراہ Rolf Mützenich کے مطابق احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے باوجود انہیں ابھی بہت سی تبدیلیوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ Mützenich نے کہا کہ اگلے دنوں میں ایران میں صورتحال کیا شکل اختیار کرتی ہے؟ اس بارے میں فی الحال خاموشی سے جائزہ لانا ہوگا۔ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ احمدی نژاد کومعاشرتی اور معاشی شعبوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر احمدی نژاد کے دوبارہ صدر بننے کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے تو انہیں اپنے ملک کے معاشرتی اور معاشی شعبوں کی ترقی اور انکے فروغ جیسے اہم چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ انہیں بیرونی عناصر پر بھی انحصار کرنا پڑے گا اور خارجہ تعلقات کو بروئے کار لانا پڑے گا۔ Mützenich کے خیال میں صدارتی انتخابات کی مہم میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے کہیں زیادہ ملک کی اقتصادی اور معاشرتی صورتحال کا عمل دخل تھا۔
جرمن ماہر Mützenich کے مطابق ایران کے مستقبل کے سیاسی استحکام کا دارومدار اس پر ہوگا کہ ملک سے مہنگائی کے خاتمے اور نوجرانوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے نئے مواقعوں کے ضمن میں آئندہ صدر اورحکومت کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ Mützenich نے ساتھ ہی اس طرف نشاندہی بھی کی ہے کہ ایران میں صدر کے اختیارات محدود جبکہ سپریم روحانی قوت انقلابی قائد خامنہ ائ کے زیادہ ہیں۔