ایرانی ایٹمی تجربات پر بین الاقوامی ردعمل کی حقیقت کیا ہے؟
12 جولائی 2008خاص طور پر اسرائیل نے اِن تجربات پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر اُس کے سلامتی کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ فوری طور پر کارروائی کرے گا۔
مشرقِ وُسطےٰ میں اِن گرمیوں میں رچائے جانے والے اِس ڈرامے میں مرکزی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ آیا یہ خطّہ ایران کے ساتھ ایک فوجی تنازعے کی جانب بڑھ رہا ہے یا یہ سب کچھ محض طاقت کی ایک ایسی نمائش ہے، جو بار بار نئے سرے سے ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں کے ہاں موضوعِ گفتگو بنتی ہے۔ ایرانی ایٹمی تجربات پر ردعمل ایک جیسا ہرگزنہیں ہے، جیسا کہ گذشتہ چند روز میں سامنے آنے والے بیانات سے پتہ چلتا ہے۔ مغربی اور اسرائیلی سیاستدان اور ’’ماہرین‘‘ اِسے ایک طرف ’’نئی ایرانی اشتعال انگیزی‘‘ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ تجربات کے بارے میں جاری کی گئی تصاویر کو کمپیوٹر کی مدد سے بدل کر جان بوجھ کر ڈرامائی بنا دیا گیا ہے۔ اِن متضاد بیانات میں ایک نکتہ مشرک ہے اور وہ ہے ایران کو خبردار کرنے کا کہ وہ آگ سے مت کھیلے اور حالات کو مزید خراب نہ کرے۔
یقیناً یہ ایک جائز مطالبہ ہوتا، اگر گذشتہ ہفتوں کے دوران دوسرے فریق مثلاً اسرائیل کو بھی مخاطب کر کے کچھ ایسا ہی کہا گیا ہوتا۔ مثلاً تب، جب نائب اسرائیلی وزیراعظم شاؤل موفاس نے کھلے عام ایران پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ یا پھر اِس کے کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل نے غیر معمولی طور پر واشگاف انداز میں یونان سے جنوب کی جانب بڑے پیمانے پر کی گئی مشقوں میں ایران یر حملے کی گویا ریہرسل کی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ نے بھی جلتی پر تیل ڈالا، جب اُنہوں نے بھی خلیج فارس میں بحری مشقیں کیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب واشنگٹن میں امریکی کانگریس کو ایران کی بحری ناکہ بندی پر راضی کرنے کے لئے بھی کوششیں جاری ہوں، اِس طرح کی مشقیں عام طور پر اعلانِ جنگ کے مترادِف ہیں۔
اِن تمام واقعات پر نہ تو کسی قسم کی تنقید سننے میں آئی اور نہ ہی کوئی استفسار۔ اِس امر کی طرف بھی کسی نے اشارہ نہیں کیا کہ ایران نے اب جن میزائلوں کا تجربہ کیا ہے، وہ تو برسوں سے اُس کے پاس ہیں اور یہ بات ہر کسی کو معلوم بھی ہے۔ اِسی طرح ہر کسی کو معلوم تو یہ بھی ہے، گو اِس پر کبھی ذرّہ برابر تنقید بھی سننے میں نہیں آئی کہ ایٹمی طاقت اسرائیل کے پاس گذشتہ کوئی بیس برسوں سے اِس طرح کے میزائل موجود ہیں اور اُس نے اِن میزائلوں کی چھ تا سات ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والی ایک بہتر قسم بھی تیار کر لی ہے۔
ردعمل میں تضاد کی وضاحت محض ایک بات سے کی جا سکتی ہے، یعنی سب پہلے سے یہ طے کر چکے ہیں کہ اِس معاملے میں شرپسند کون ہے۔ سرے سے ایران کے ساتھ جاری ایٹمی تنازعے کو ہی دیکھا جائے کہ ثبوت کوئی نہیں ہے اور ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے قیاس آرائیوں اور شکوک و شبہات ہی کوکافی سمجھا جا رہا ہے۔ اور تو اور یہ بھی گوارا نہیں کہ ایران جواب میں خود پر کسی حملے کے نتائج سے خبردار کرے یا یہی کہے کہ وہ وقت آنے پر اپنا دفاع کرے گا۔
یہ محض بدنیتی ہے، جو اِس طرح کی صورتِ حال کا باعث بنتی اور اُسے ہوا دیتی ہے۔ ایرانی صدر بھی بار بار اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی شدید بیان بازی کے ذریعے اِس صورتِ حال کے جاری رہنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم محمود احمدی نژاد اِنہی بیانات کے باعث اب زیادہ سے زیادہ ایران کے اندر بھی ہدفِ تنقید بن رہے ہیں۔ اب آہستہ آہستہ واشنگٹن اور یروشلم کے ساتھ ساتھ برلن میں بھی اِس بات کو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ایران کے خلاف اِس طرح کی یکطرفہ حکمتِ عملی ایرانی صدر کے اِنہی ناقدین کی کمر توڑ کر رکھ دے گی جبکہ انتہا پسند مَوقِف کے حامل ایرانیوں کے ہاتھ اورمضبوط ہو جائیں گے۔