1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیس لاکھ افغان پناہ گزین ملک بدر کرنے کا ایرانی منصوبہ

16 ستمبر 2024

ایران میں کئی برسوں سے جاری معاشی مشکلات کے تناظر میں ملکی حکومت نے اب افغان پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے مطابق آئندہ چھ ماہ میں 20 لاکھ کے قریب افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4kgOw
ایران مین مقایم افغان پناہ گزین
تصویر: Mohsen Karimi/AFP/Getty Images

ایرانی پولیس کے سربراہ احمد رضا رادان نے اعلان کیا ہے کہ ایران آئندہ چھ ماہ میں قریب دو ملین ایسے غیر ملکیوں کو  واپس بھیج دے گا جو غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں۔

ایرانی نیوز ایجنسی 'ینگ جرنلسٹس کلب‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں رادان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور وزارت داخلہ طویل المدتی بنیادوں پر ملک میں ''غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ایک قابل غور تعداد‘ کو ملک بدر کرنے کے لیے مناسب اقدامات پر کام کر رہی ہیں۔

پاکستان:رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں ایک سال کی توسیع

جرمنی: چاقو زنی کے واقعے کے بعد افغانوں کی ملک بدری پر غور

ایرانی حکام جب 'غیر قانونی غیر ملکیوں‘ کی بات کرتے ہیں تو عام طور پر ان کا مطلب افغان پناہ گزین ہوتا ہے۔ افغانستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے، جس کے کچھ حصے ایسے بلند وبالا پہاڑی سلسلوں سے گزرتے ہیں جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ افغان باشندے گزشتہ 40 برسوں سے خانہ جنگی، غربت اور اب طالبان سے بچنے کے لیے ایران میں پناہ لیتے رہے ہیں۔

ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ایرانی وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے کہا، ''افغان مہذب لوگ ہیں، لیکن ہمارا ملک بہت زیادہ تارکین وطن کو قبول نہیں کر سکتا۔‘‘

افغان باشندے
افغان باشندے گزشتہ 40 برسوں سے خانہ جنگی، غربت اور اب طالبان سے بچنے کے لیے ایران میں پناہ لیتے رہے ہیں۔تصویر: Ebrahim NorooziAP/picture alliance

انہوں نے ان مشکلات کا حوالہ دیا جو لوگوں کو افغانستان میں درپیش ہیں اور ساتھ ہی افغان اور ایرانی باشندوں کے درمیان ثقافتی مماثلت کا بھی ذکر کیا۔

اسکندر مومنی کے بقول، ''ہم ان معاملات کو مناسب طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اور بغیر کوئی مسئلہ پیدا کیے... ہماری ترجیح غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔‘‘

رواں برس مئی میں ایرانی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران قریب 13 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا تھا۔

ایران میں 40 لاکھ سے زائد افغان موجود ہیں، عالمی ادارہ مہاجرت

اقوام متحدہ کی مہاجرت سے متعلق ایجنسی یو این ایچ سی آر کا تخمینہ ہے کہ اس وقت ایران میں قریب 45 لاکھ افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔ ایرانی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق تاہم اصل تعداد 60 لاکھ سے لے کر 80 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس قانونی اجازت نامہ موجود نہیں ہے کیونکہ وہ اس خوف کی وجہ سے ایرانی حکام کے پاس اپنی رجسٹریشن نہیں کراتے کہ کہیں انہیں ملک بدر نہ کر دیا جائے۔ بہت سے افغان باشندے یورپ پہنچنے کے لیے بھی ایران کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

مشترکہ زبان کے سبب افغان تارکین وطن ایرانی معاشرے میں آسانی سے ضم ہو جاتے ہیں اور گزر بسر کے لیے انہیں اپنے جیسے دیگر غیر قانونی تارکین کی مدد بھی مل جاتی ہے۔ ایسے بہت سے افغان باشندے زرعی اور تعمیرات کے شعبوں میں ایسی سستی مزدوری کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں، جہاں ایرانی باشندے کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔

دریں اثنا بہت سے ایرانی شہریوں کا ماننا ہے کہ غیر قانونی طور پر ایران میں مقیم افغان مزدور لیبر مارکیٹ کو خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور ملکی ویلفیئر نظام پر ایک بوجھ ہیں۔

افغان فیکٹری ورکر
ایرانی شہریوں کا ماننا ہے کہ غیر قانونی طور پر ایران میں مقیم افغان مزدور لیبر مارکیٹ کو خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور ملکی ویلفیئر نظام پر ایک بوجھ ہیں۔تصویر: Z.A/DW

ایران میں مقیم افغان باشندوں کی بہت بڑی تعداد حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں گرما گرم بحث کا موضوع بھی بنی رہی ہے۔ ملکی میڈیا قریب روزانہ کی بنیاد پر ایسے جرائم کی رپورٹس شائع کرتا رہتا ہے جن کی وجہ مبینہ طور پر پناہ گزین ہوتے ہیں۔ ان جرائم میں جنسی زیادتی اور قتل تک جیسے معاملات شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں بنیادی اشیائے ضرورت کی کمی بھی نیوز رپورٹس کا موضوع بنی رہتی ہے اور ساتھ ہی ایسی متعدی بیماریاں بھی جن کے لیے غیر قانونی تارکین وطن کو مناسب ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔

ملکی سوشل میڈیا پر افغان باشندوں کی ملک بدری کی اپیلیں یا پھر ان کے خلاف نفرت انگیز پوسٹ بھی اکثر اوقات سامنے آتی رہتی ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کے حق میں بولنے والوں کو بھی نفرت کا سامنا

ایرانی صحافی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن اور افغانستان سے جڑے معاملات کی ماہر ژیلا بنی یعقوب جیسے لوگ، جو اس طرح کے معاندانہ جذبات کے خلاف بولتے ہیں اور تارکین وطن کے حقوق کی نشاندہی کرتے ہیں یا ان کے غیر یقینی حالات زندگی کو اجاگر کرتے ہیں، وہ خود بھی ایسی نفرت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے مسلسل نفرت انگیز پیغامات اور یہاں تک کہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں... وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں۔‘‘

ژیلا بنی یعقوب ان 540 صحافیوں، وکلاء، فنکاروں، ڈاکٹروں اور کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال افغان مہاجرین کے ساتھ یکجہتی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے۔

پاکستان:غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی ملک بدری دوبارہ شروع

یہ گروپ تارکین وطن کے خلاف ایک منظم نفرت انگیز مہم پر کھلے عام سوال اٹھاتا ہے اور اس طرح کی عوامیت پسندی کے غیر متوقع اثرات کے بارے میں متنبہ کرتا ہے: ''ایک طویل عرصے سے، یہ ملک معاشی بحران اور بدانتظامی کا شکار رہا ہے۔ گزشتہ سال سے حکام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں خوراک کی بڑھتی قیمتوں جیسے مسائل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اب ان پر بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے اور ملک بدر کرنے کا دباؤ ہے۔ لیکن وہ سرحد کو محفوظ بنانے سے قاصر ہیں۔ بہت سے تارکین وطن واپس آ جائیں گے۔ یہ مسئلہ نفرت اور الزام تراشی سے حل نہیں ہوگا۔‘‘

احتجاج اور حملے

حالیہ مہینوں میں ملک بھر کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور افغان مہاجرین کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نذر محمد نظری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''غصہ بڑھ رہا ہے‘‘۔ نظری ایران میں بہتر زندگی کی امید کر رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ دراصل افغانستان واپس گئے تھے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''چند ماہ قبل، ایک شادی کے بعد ایرانیوں اور افغانوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور ایک ایرانی مارا گیا۔ اس کے بعد، افغان افراد پر حملے کیے گئے۔ میں اب محفوظ محسوس نہیں کر رہا۔‘‘

اس طرح کے حملوں کے علاوہ، تارکین وطن کو گرفتار ہونے اور ملک بدر کیے جانے کا خطرہ بھی ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ گزشتہ ہفتے میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران میں پیدا ہونے والے ایسے افراد کو بھی ملک بدر کیا جا رہا ہے، جن کے پاس ایرانی کاغذات ہیں اور جن کے پاس افغانستان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

ایران افغانستان کے ساتھ اپنی شمال مشرقی سرحد پر ایک دیوار بھی تعمیر کر رہا ہے، جہاں سے افغان سب سے زیادہ گزرتے ہیں۔ فی الحال، حکومت 74 کلومیٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جو چار میٹر (13 فٹ) بلند ہوگی اور جس پر خاردار تاریں نصب ہوں گی، تاہم مشترکہ سرحد کی لمبائی کو دیکھتے ہوئے، بہت سے لوگوں کو شبہ ہے کہ دیوار غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کو کم کر سکے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو کی صحافی شبنم فان ہائیم کا یہ آرٹیکل اصل میں جرمن زبان میں شائع ہوا، جس کا ترجمہ یہاں پیش ہے۔

شبنم فان ہائیم (ا ب ا، ع آ)