1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران، چین اور روس کی بحری فوجی مشقوں کا آغاز

27 دسمبر 2019

بحر ہند میں روسی، چینی اور ایرانی بحری افواج کی جنگی مشقیں شروع ہو گئی ہیں۔ ان مشترکہ فوجی مشقوں کا علاقہ خلیج عمان اور بحر ہند سے جڑا سمندری حصہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3VNmv
Symbolbild Anspannung in der Straße von Hormus
تصویر: Imago Images/ZUMAPRESS.com/U.S. Marine Corps/Lance Cpl. D. Swanbeck

ایران کے ارد گرد کا سمندری علاقہ حالیہ کچھ مہینوں سے بہت زیادہ بین الاقوامی اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ تہران اور واشنگٹن حکومتوں کے درمیان پیدا کشیدگی ہے۔ امریکا کا ایرانی حکومت پر الزام ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں مختلف دہشت گردانہ تحریکوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران شامی صدر بشار الاسد کا کھلا حلیف ہے اور لبنانی عسکری و سیاسی تحریک حزب اللہ کی بھی واضح طور پر حمایت کرتا ہے۔

جنگی مشقوں میں شریک ایرانی بحری جنگی بیڑے کے کمانڈر ایڈمرل غلام رضا کا کہنا ہے کہ ان جنگی مشقوں کا پیغام بہت واضح ہے اور یہ دوستی، امن اور علاقائی سمندری سلامتی کو مستحکم کرنے سے متعلق ہے۔ اعلیٰ ایرانی فوجی افسر کے مطابق ان جنگی مشقوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی منظر پر ایران تنہا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے حلیفوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

Persischer Golf mutmaßlich durch den Iran festgehaltener Tanker
ایران کا سمندری علاقہ شدید کشیدگی سے عبارت ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/IRGC/IRIB

ایرانی حکومتی ٹیلی وژن کے مطابق روس، چین اور ایران کی بحری افواج کی مشقوں میں جنگی حالات میں متاثرہ بحری جہازوں کو محفوظ مقام تک منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ قزاقوں کے خلاف مہم کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان مشقوں میں تینوں ملکوں کے بحری جہاز فائرنگ کے دوران جوابی کارروائی پر بھی فوکس کریں گے۔

چین نے جمعہ ستائیس دسمبر کو شروع ہونے والی فوجی مشقوں میں میزائل بردار جنگی بحری جہاز روانہ کیا ہے۔ اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مشقوں کا بظاہر علاقائی سلامتی سے تعلق  نہیں جوڑا جا سکتا بلکہ یہ بحری فوج کی استعداد بڑھانے سے متعلق ہیں۔ اسی طرح روسی جنگی بحری جہاز بھی چار روزہ بحری فوجی مشقوں میں حصہ لینے کے لیے پہنچے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ خلیج عمان کی سمندری گزرگاہ بین الاقوامی تجارت میں انتہائی اہم ہے۔ یہ خلیج آبنائے ہرمز کے ساتھ بھی جڑتی ہے۔ آبنائے ہرمز کے راستے دنیا کو تیل کی وسیع سپلائی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سپلائی دنیا کی کل طلب کا پانچواں حصہ بنتی ہے۔

Kriegsschiff Royal Navy Type 23 Fregatte HMS Montrose
آبنائے ہرمز کے راستے دنیا کو خام تیل کی بڑی سپلائی جاری رہتی ہےتصویر: picture-alliance/AP/UK Ministry of Defence

آبنائے ہرمز کی نگرانی کے لیے امریکی بحری مشن بھی اسی سمندری خطے میں موجود ہے۔ اس امریکی بحری مشن کا آغاز سن 2019 کے مہینوں مئی اور جون میں مختلف تجارتی جہازوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے بعد ہی کیا گیا تھا۔ جن بحری جہازوں پر حملے کیے گئے تھے، وہ سعودی عرب کے آئل ٹینکرز تھے۔ ایران ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔

 ایران کے روس اور چین کے ساتھ گہرے روابط استوار ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ حکومتیں ایران کی کئی بین الاقوامی فورمز پر حمایت بھی کرتی ہیں۔

ع ح ⁄ ک م (روئٹرز)

ایرانی ڈیل اور شام کا مسئلہ کیا ہے، یورپی امریکی اختلافات کیا ہیں؟