اسرائیلی پلان کی دستاویزات لیک: سابق امریکی اہلکار قصور وار
18 جنوری 2025امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کے آصف رحمان نامی ایک 34 سالہ سابقہ اہلکار پر الزام تھا کہ اس نے ایران پر اسرائیلی فوجی حملے سے متعلق انتہائی خفیہ امریکی دستاویزات لیک کر دی تھیں۔
لبنان کے آرمی چیف ملک کے نئے صدر منتخب
ملزم آصف رحمان نے اب اعتراف کر لیا ہے کہ وہ عملاﹰ ان خفیہ دستاویزات کے افشاء کا مرتکب ہوا تھا۔
گزشتہ برس کمبوڈیا سے گرفتاری
ماضی میں سی آئی اے کے لیے کام کرنے والا یہ اہلکار بنیادی طور پر ایک تجزیہ کار تھا۔ وہ 2016ء سے سی آئی اے کے لیے کام کر رہا تھا اور سی آئی اے میں اس کی تعیناتی سے قبل اس کی ٹاپ سیکرٹ سکیورٹی کلیئرنس بھی ہوئی تھی۔
ملزم آصف رحمان کو گزشتہ برس نومبر میں کمبوڈیا میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے اس کے جرم کی پاداش میں 20 سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
ایران میں گزشتہ برس نو سو افراد کو سزائے موت دی گئی، اقوام متحدہ
ملزم نے امریکی ریاست ورجینیا میں اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وفاقی عدالت میں تسلیم کر لیا کہ وہ قومی دفاعی نوعیت کی معلومات کو دانستہ طور پر اپنے پاس رکھنے اور پھر انہیں آگے کسی کو مہیا کرنے کے دو واقعات میں جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔
ایرانی اسرائیلی کشیدگی کے تناظر میں ملزم کا جرم
لبنان کی ایران نواز شیعہ تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے دو مختلف اسرائیلی حملوں میں تہران اور بیروت میں ہلاک کر دیے جانے کا بدلہ لینے کے لیے ایران نے جواباﹰ گزشتہ برس یکم اکتوبر کو اسرائیل پر تقریباﹰ 200 بیلسٹک میزائل فائر کیے تھے۔
اس ایرانی حملے کے جواب میں اسرائیل نے گزشتہ برس اکتوبر کے اواخر میں ایران میں کئی عسکری اہداف کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی ریاست ورجینیا کی ایک فیڈرل کورٹ میں پیش کردہ ثبوتوں کے مطابق ملزم آصف رحمان نے 17 اکتوبر 2024ء کے روز ''امریکہ کے ایک غیر ملکی اتحادی اور اس کی طرف سے اس کے ایک حریف ملک کے خلاف کارروائیوں سے متعلق‘‘ دو انتہائی خفیہ دستاویزات پرنٹ کی تھیں۔
اسرائیل کا حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کرنے کا اعتراف
عدالتی ریکارڈ کے مطابق ملزم آصف رحمان نے ان ٹاپ سیکرٹ دستاویزات کی تصویریں بنائیں اور پھر ان تصویروں کو ایک کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے ایڈیٹ بھی کیا تاکہ ان کے ذریعے کو چھاپا جا سکے۔ اس کے بعد ملزم نے اپنے ان تمام اقدامات کا کمپیوٹر پر موجود ریکارڈ ڈیلیٹ بھی کر دیا تھا۔‘‘
خفیہ دستاویزات متعدد افراد کو بھیجی گئیں
عدالت میں پیش کردہ شواہد کے مطابق ملزم آصف رحمان نے ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی حملے کے منصوبوں سے متعلق یہ خفیہ دستاویزات ''متعدد ایسے افراد کو بھیجیں، جو انہیں وصول کرنے کے مجاز نہ تھے۔‘‘ اس کے بعد ملزم نے یہ دستاویزات اپنی کام کی جگہ پر ہی تلف کر دی تھیں۔
اسرائیل پر حملہ کرنے والے کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی، نیتن یاہو
عدالتی ریکارڈ کے مطابق، ''رحمان نے اپنے ایک ذاتی موبائل فون اور ایک انٹرنیٹ روٹر سمیت متعدد ایسے الیکٹرانک آلات بھی تباہ کر دیے تھے، جنہیں اس نے ٹاپ سیکرٹ انفارمیشن بھیجنے کے لیے استعمال کیا تھا۔‘‘ بعد میں اس نے یہ تلف کردہ الیکٹرانک آلات سر راہ لگے ہوئے مختلف عوامی کوڑے دانوں میں پھینک دیے تھے۔
اس واقعے میں ملزم کی طرف سے لیک کی گئی تصویریں بعد ازاں ''مڈل ایسٹ اسپیکٹیٹر‘‘ نامی اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر گردش بھی کرتی رہی تھیں۔
اسرائیل کو جوابی حملے 'مؤخر‘ کرنا پڑ گئے تھے
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ملزم رحمان نے جو دستاویزات لیک کی تھیں، ان میں ایران پر اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملوں کا ذکر تو تھا، تاہم ان میں حملوں کے اہداف کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔
ایران نے اسرائیل میں اتنے زیادہ جاسوس کیسے بھرتی کیے؟
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ ٹاپ سیکرٹ دستاویزات امریکہ کی نیشنل جیو اسپیشیئل انٹیلیجنس ایجنسی نے تیار کی تھیں اور ان میں ایک اسرائیلی ایئر فیلڈ پر فوجی تیاریوں اور گولہ بارود کی نقل و حمل کی تفصیلات بھی تھیں۔
اخبار کے مطابق اسرائیلی حکام نے تب اس لیک کا علم ہونے کے بعد ایران کے خلاف جوابی فوجی حملے مؤخر کر دیے تھے۔
خفیہ دستاویزات افشا ہونے پر امریکہ کی سبکی
آصف رحمان کے خلاف مقدمے میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل میتھیو اولسن نے ایک بیان میں کہا، ''آصف رحمان قومی دفاع سے متعلق وہ معلومات غیر قانونی طور پر شیئر کر کے، جن کی حفاظت کا انہوں نے حلف اٹھا رکھا تھا، اپنی ذات پر امریکی عوام کی طرف سے کیے گئے اعتماد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔‘‘
م م / ع ت (اے ایف پی، اے پی)