1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہایران

ایران میں ناقابل تنسیخ انقلاب شروع ہو چکا، شیریں عبادی

7 فروری 2023

نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ ایران میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک کو ’’عملی اقدامات‘‘ کرنے چاہییں۔

https://p.dw.com/p/4NC8Z
Archivbild 2019 | Shirin Ebadi, iranische Juristin & Menschenrechtsaktivistin | Friedensnobelpreisträgerin
تصویر: Carlos Alvarez/Getty Images

ایرانی نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں بھڑکنے والے احتجاجی مظاہروں کے شعلے ایک ایسے ناقابل تنسیخ انقلاب کی شکل اختیار کرچُکے ہیں جو بالآخر موجودہ اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا سبب بنے گا۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو فون پر دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا۔ 

شیریں عبادی جو سن 2009 میں جلاوطنی کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں ایرانی حکومت کی سخت ناقد اور حکومت مخالف مظاہروں کی برملا حمایتی رہی ہیں۔ حکومت کے دیگر اور ناقدین  کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ مہسا امینی کی وفات کے بعد سے اٹھنے والی احتجاج کی لہر حکام کو درپیش ایک ایسا چیلنج ہے جس نے ایران میں رائج مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت پر کھلے عام سوال اٹھایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ انقلابی عمل ایک ریل کی طرح ہے جو اپنی منزل کو پہنچنے سے پہلے نہیں رکے گا۔‘‘

گزشتہ برس ستمبر کے وسط میں ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘ نے 22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں مبینہ طور پر حجاب درست طریقے سے نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اسے پولیس اسٹیشن لے گئے تھے، جہاں وہ کوما میں چلی گئی تھی۔ تین دن بعد 16 ستمبر کو مہسا امینی ہسپتال میں ہی دم توڑ گئی تھی۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

ان کی وفات کے بعد سے ایران کے مذہبی حکمرانوں کو بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے۔

اپنے دفاع میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا امینی کی موت ان کو گرفتاری سے قبل درپیش صحت کے مسائل کے باعث ہوئی تھی، اور امریکہ اور دوسرے ’ایران دشمن ممالک‘ پر  مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے حالیہ مظاہروں کے پیچھے کارفرما ہونے کا الزام لگایا ہے۔

ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو روکنےکے لیے سخت اقدامات بھی کیے اور اب تک مہسا امینی کے موت پر ہونے والے احتجاج سے منسلک کم از کم چار افراد کو پھانسی دی ہے اور کئی اور کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ان حکومتی اقدامات کا مقصد لوگوں کو ڈرانا اور ان کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے سے روکنا ہے۔

London | Proteste gegen Islamische Republik Iran
کئی ماہ سے جاری مظاہروں میں عوام ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نارے اور موجودہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تصویر: Jonathan Brady/PA/picture alliance

اب کئی ماہ سے جاری مظاہروں میں عوام سڑکوں پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نارے اور موجودہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طویل احتجاج کے سلسلے کو ایرانی عوام میں معاشی مسائل، اقلیتوں کے خلاف نسلی تفریق اور سخت معاشرتی اور سیاسی پابندیوں کے باعث برسوں دبے غصے کے اظہار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن حکومت کے سخت اقدامات کے بعد سے ان مظاہروں میں کمی آئی ہے۔

اس حوالے سے شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ ایرانی ریاست کی جانب سے تشدد عوام میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موجود غم و غصے کو مزید بڑھاوا دے گا کیونکہ ان کی شکایات سے متعلق ابھی تک حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ 

ان کے مطابق کئی مہینوں مسلسل جاری اس احتجاج نے ایک مختلف شکل اختیار کر لی ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔

شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ ایران میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک کو ’’عملی اقدامات‘‘ کرنا ہوں گے۔ مثلاﹰ ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانا اور تہران سے اپنے سیاسی تعلقات محدود کرنا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مغربی حکومتیں طویل عرصے سے تعطل کا شکار سن 2015 کے جوہری معاہدے سمیت ایران کے ساتھ کسی اور معاہدے پر اتفاق نہ کریں۔
م ا / ک م (روئٹرز)