ایران میں امریکی سفارت خانے پرحملے کے 29 سال
4 نومبر 2008ایرانی دارالحکومت میں واقع امریکی سفارت خانے پر آج سے ٹھیک انتیس سال پہلے حملہ کیا گیا تھا اور ساٹھ امریکی شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ برسوں گزر جانے کے باوجود آج بھی امریکہ ایران تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔ اس حوالے سے تہران سے Ulrich Pick کی لکھی رپورٹ:
ایران کے اسٹیٹ سیکریٹری Sadegh Tabatabae نے بعد ازاں بتایا:’’یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہا کہ امریکی سفارت خانے کے لوگ انقلاب ایران کے بعد ملک میں ہونے والی بہت سی گڑ بڑ میں نہ صرف درپردہ شریک رہے بلکہ اس کے منصوبے بھی بناتے رہے۔ ہم بجا طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سفارتی مرکز نہ تھا بلکہ جاسوسی کا ایک مرکز تھا ۔‘‘
آیت اللہ خمینی نے اس معا ملے کے حق میں کہا اور نہ ہی اس کے کچھ خلاف ۔ وہ جانتے تھے کہ ہر یرغمالی دن کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ واشنگٹن پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یرغمالیوں کو رہا کرانے کے مذاکرات ناکام رہے۔ امریکی صدر جمی کارٹر کو ایک ہی حل سوجھا۔ انہوں نے 24.4.1980 کو ایک فوجی مشن کے تحت یرغمالیوں کو رہا کرانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ مشن بری طرح سے ناکام ہو گیا۔ دو امریکی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے جس سے 8 فوجی ہلاک ہو گئے۔
اس ناکامی نے جمی کارٹر کی مقبولیت پر سخت منفی اثر ڈالا اور وہ نومبر 1980کے صدارتی انتخاب میں رونالڈ ریگن کے مقابلے میں ہار گئے۔ بالاخر مذاکراتی کوششوں سے 444 دنوں بعد یرغمالیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔
1997 تک امریکہ اور ایران کے تعلقات سردمہری سے عبارت رہے۔ محمد خاتمی کے صدر بننے کے بعد ان تعلقات میں کچھ بہتری رونما ہوئی۔
جارج ڈبلیو بش کے دور میں ان تعلقات میں بہت بگاڑ پیدا ہوا۔ تاہم 2003 کے زلزلے کے موقع پر امریکہ نے 81 فوجی مدد کے لئےایران روانہ کئے جن کا کھلے دلوں وہاں خیر مقدم کیا گیا۔
2003 کے اوائل میں جب پتہ چلا کہ ایران نئے ایٹمی ری ایکٹر نصب کر رہا ہے جہاں ایٹمی ہتھیار بھی تیار کئے جا سکیں گے توامریکہ نے سخت تشویش کا اظہارکیا۔ اور ایران پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام روک دے۔ دوسری طرف ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ یہ کھینچا تانی ابھی تک جاری ہے۔