ایران: غیر قانونی اسقاط حمل پر مجبور خواتین
12 جنوری 2025اگرچہ ایرانی حکام نے آبادی میں کمی کو روکنے کی کوشش میں اسقاط حمل تک رسائی کو انتہائی محدود کر دیا ہے، لیکن زیادہ تر خواتین ان چاہے حمل کو ختم کرانے کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کرتی ہیں۔
ایرانکی نیوز ویب سائٹ خبر آن لائن نے جون 2024 میں ایرانی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے تناظر میں رپورٹ کیا کہ ایران میں سالانہ چھ لاکھ سے زیادہ غیر قانونی اسقاط حمل کیے جاتے ہیں۔
آبادی میں اضافے کے لیے نیا ایرانی قانون ’حقوق نسواں کے منافی‘
ایرانی طبی کونسل کی ڈاکٹروں کی شدید کمی کے خلاف تنبیہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور سماجی تحفظ کی کمی وغیرہ وہ عوامل ہیں، جن کی وجہ سے خواتین سنگین خطرات کے باوجود اسقاط حمل پر مجبور ہوتی ہیں۔
نومبر 2021 میں ایرانی قانون سازوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سرپرستی میں ایک قانون منظور کیا جسے ''آبادی کی بحالی اور خاندان کی حمایت‘‘ کا نام دیا گیا۔
سات سال کی آزمائشی مدت کے لیے لاگو کیے جانے والے اس 'پاپولیشن لا‘ کی اقوام متحدہ کی طرف سے بھی مذمت کی گئی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس قانون سازی کو ''بین الاقوامی قانون کے تحت خواتین کے انسانی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے کارکنوں کا کہنا ہے، ''یہ قانون تولیدی صحت سے متعلق مختلف خدمات اور تولیدی حقوق سے متعلق معلومات تک رسائی کو روک کر زندگی اور صحت کے حقوق کی خلاف ورزی کا سبب ہے۔‘‘
تولیدی صحت کے حوالے سے سخت پابندیاں
آبادی کے قانون کے تحت اسقاط حمل کی اجازت صرف اس صورت میں ہے، جب ماں یا جنین کی جان کو خطرہ ہو اور یہ اجازت بھی ایک پینل کی جانب سے دی جاتی ہے، جس میں ایک جج، عدالت کی جانب سے مقرر کردہ ڈاکٹر اور ایک فرانزک ڈاکٹر شامل ہوتا ہے۔
غیر قانونی طور پر اسقاط حمل کرنے والے ڈاکٹروں یا سرجنوں کے لیے ان کے لائسنس کی منسوخی، دو سے پانچ سال قید اور بھاری جرمانے جیسی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
مانع حمل ادویات بھی اب صحت کے مراکز یا فارمیسیوں میں مفت فراہم نہیں کی جاتیں۔ مزید برآں، قانون کسی بھی قسم کی نس بندی کو جرم قرار دیتا ہے۔
اسقاط حمل کے لیے 'بلیک مارکیٹ‘ کا رُخ
ایسے متعدد اشارے ملے ہیں کہ حکومتی پابندیوں نے ایران کو اسقاط حمل کی ادویات کی بڑھتی ہوئی بلیک مارکیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
آسٹریلیا کی کوئنزلینڈ یونیورسٹی کی لیکچرر ڈاکٹر پروین دلشاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ پابندیاں 'اسقاط حمل کے غیر قانونی طریقوں‘ کے سبب زچگی سے جڑی شرح اموات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
’’اس سے قطع نظر کہ اسقاط حمل گھر پر، ادویات کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے یا سرجیکل طریقے سے، یہ کسی ماہر کی نگرانی میں کیا جانا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
دلشاد نے زور دیا کہ ڈاکٹروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسقاط حمل کرانے والی خواتین جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کا شکار نہ ہوں، کیونکہ اس سے پیٹ کے انفیکشن اور اس کے بعد بانجھ پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر دلشاد کے مطابق غیر قانونی اسقاط حمل کی ادویات لینے والی خواتین اکثر صحت کی پیچیدگیوں سے بے خبر رہتی ہیں اور غیر محفوظ اسقاط حمل سے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
ایرانی وزارت صحت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباﹰ 60 فیصد اسقاط حمل گھر پر اسقاط حمل کی گولیوں کا استعمال کرتے ہوئے، 30 فیصد ڈاکٹروں کے کلینک میں اور 10 فیصد 'ہربل اسٹورز‘ میں کیے جاتے ہیں، جہاں ہربل پراڈکٹس استعمال کی جاتی ہیں۔
ایران میں آبادی کا مسئلہ
نومبر 2024 میں ایران کے نائب وزیر صحت علی رضا رئیسی نے متنبہ کیا تھا کہ شرح پیدائش میں کمی کا مطلب ہے کہ 2100 تک ایران کی آبادی میں 50 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
تولیدی صحت پر سخت پابندیوں کے ساتھ ساتھ، ایران کے آبادی کے قانون کے تحت خاندانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے 'مراعات‘ کی پیش کش کی جا رہی ہے۔
ان میں تیسرے بچے والے خاندان کو 200 مربع میٹر زمین فراہم کرنا، دوسرا بچہ پیدا کرنے والی ماؤں کے لیے نئی گاڑیاں اور تین یا اس سے زیادہ بچوں والی بے روزگار ماؤں کے لیے مکمل ہیلتھ انشورنس شامل ہیں۔
لیکن کیا ایرانی حکام اصل میں خاندانوں کو یہ مراعات فراہم کر بھی سکتے ہیں، اس پر تہران یونیورسٹی کے ایک ماہر سماجیات نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے شک و شبے کا اظہار کیا، ''آبادی میں اضافے پر بات کرنے سے پہلے، ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اصل میں کتنے وسائل دستیاب ہیں۔ کیا ان وعدوں کو پورا کیا جا سکتا ہے؟''
اس ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے کے بارے میں ایرانی عوام کی مکمل قبولیت کے بغیر، قوانین کا صرف سطحی اثر پڑے گا، چاہے وہ جابرانہ اقدامات کے ذریعے ہی مسلط کیے گئے ہوں: ''زندگی کے معیار اور سماجی فلاح و بہبود کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک منصفانہ رسائی ہے اور لیبر مارکیٹ کی کیا صورتحال ہے؟‘‘
ماہر سماجیات کے مطابق یہ قوانین اگر معاشی طور پر پسماندہ حالات میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے بھی ہیں تو بھی ایران کی معیشت اور معاشرے میں بنیادی مسائل مستقبل میں ترقی کے لیے ایک چیلنج رہیں گے۔
سمیعہ شرافتی (ا ب ا/ا ا)