ایران: برطانوی سفارت خانے کا اہلکار رہا
20 جولائی 2009حسین رسّام تہران میں برطانوی سفارت خانے کے ان نو اہلکاروں میں سے تھا جن کو ایرانی حکومت نے بارہ جون کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں شورش کو ہوا دینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ بقیہ آٹھ اہلکاروں کو ایرانی حکومت پہلے رہا کرچکی تھی۔ اتوار کے روز حسین رسّام کو عدالت نے ایک لاکھ امریکی ڈالرز کی ضمانت وصول کرنے کے بعد رہا کردیا۔
برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے حسین رسّام کی رہائی پر مسرّت کا اظہار کیا اور ایک مرتبہ پھر کہا کہ برطانوی سفارت خانے کے عملے کا ایرانی انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج اور مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
حسین رسّام کے وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ رسّام رہا کردیے گئے ہیں اور وہ اچھّی حالت میں دکھائی دے رہے ہیں۔
حسین رسّام ایران میں برطانوی سفارت خانے میں سینیئر سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں۔ ستائیس جون کو انہیں اور سفارت خانے کے دیگر آٹھ اہلکاروں کو ایرانی حکومت نے ایران کی قومی سلامتی کے خلاف کارروائیں کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ برطانیہ نے اپنے سفارت خانے کے اہلکاروں کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا تھا۔
واضح رہے کہ ایران میں بارہ جون کو ہوئے صدارتی انتخابات میں صدر محمود احمدی نژاد کو سرکاری طور پر فاتح قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد احمدی نژاد کے حریف امیدوارمیرحسین موسوی کے حامیوں اور دیگر افراد نے ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے زبردست مظاہرے کیے۔ انیس سو نواسی کے ’ایرانی انقلاب‘ کے بعد یہ سب سے بڑے مظاہرے قرار دیئے گئے ہیں۔
برطانوی سفارت خانے کے عملے کی گرفتاری نے ایران اور برطانیہ کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا تھا۔ ایران نے برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے علاوہ سعودی عرب پر بھی الزام عائد کیا تھا کہ یہ ممالک ایرانی مظاہرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
حسین رسّام کی رہائی کے بارے میں برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں تک برطانیہ اور ایران کے درمیان ان افراد کی رہائی کے لیے ذبردست سفارتی کوششیں جاری رہیں اور اس حوالے سے وہ خود ایرانی وزیرِ خارجہ منوچہر متقّی سے رابطے میں تھے۔