1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ای میل جرمنی میں بھی محفوظ نہیں

مُو چُوئی / اے اے 21 اگست 2013

گوگل اپنے اشتہارات کے لیے ای میلز کو اسکین کرتا ہے جبکہ امریکی ادارہ NSA قومی سلامتی کے نام پر ڈیٹا جمع کرتا ہے۔ جرمنی میں قانوناً ای میلز کے حوالے سے بھی مواصلاتی رازداری برتی جانی چاہیے لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔

https://p.dw.com/p/19U9Y
تصویر: picture-alliance/dpa

سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کی ای میل سروس ’جی میل‘ اپنے 400 سو ملین سے زیادہ صارفین کے ساتھ دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ای میل سروس ہے۔ جرمنی کی ای میل مارکیٹ میں ’جی میل‘ کا حصہ سترہ فیصد ہے۔

گوگل اپنی ویب سائٹ پر یہ یقین دلاتا ہے کہ ڈیٹا کے تحفظ اور سکیورٹی کو گوگل کے ہاں ترجیحی اہمیت حاصل ہے تاہم حال ہی میں ایک عدالتی کارروائی کے دوران گوگل کے وکلاء نے اس کے بالکل برعکس بیان دیا۔

اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ ’جی میل‘ کے صارفین کو پرائیویسی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا:’’جو شخص اپنے کسی کاروباری ساتھی کو کوئی خط بھی بھیجتا ہے، تو اُسے اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اُس ساتھی کا کوئی اسسٹنٹ اُس خط کو کھول لے گا۔ اسی طرح اگر ای میل کو بھی مکتوب الیہ کا کوئی اسسٹنٹ کھول لیتا ہے تو ویب میل سروسز کے صارفین کو اس پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

جرمن ٹیلی کام اور دیگر ادارے ایک پریس کانفرنس میں محفوظ ای میل سروسز کے آغاز کا اعلان کر رہے ہیں
جرمن ٹیلی کام اور دیگر ادارے ایک پریس کانفرنس میں محفوظ ای میل سروسز کے آغاز کا اعلان کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

گوگل کا دعویٰ ہے کہ ’جی میل‘ کے سرور پر محفوظ کی گئی ای میلز کو وائرس اور اسپیم سے بچاؤ کی خاطر اسکین کیا جاتا ہے لیکن یہ کہ میلز کی عبارت تک کسی فرد کی رسائی نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی گوگل نے لیکن یہ بھی مانا کہ ای میلز کی خود کار تلاش کا مقصد ای میلز پر موضوع کے اعتبار سے موزوں اشتہارات لگانا بھی ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گوگل کے ہاں ای میلز پر جو کچھ بیتتا ہے، اُس کا علم تو سب کو پہلے ہی سے تھا لیکن اب یہ بات پہلی دفعہ واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ ای میل پرووائیڈر کو اپنے گاہکوں کی میلز کی عبارت تک بھی مکمل رسائی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ گوگل اپنی اسکیننگ کے نتائج کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح خاص طور پر امریکا کے سرکاری ادارے بھی میلز کو دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔

ان حالات میں کچھ ماہرین، حتیٰ کہ جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش کے خیال میں بھی امریکی ای میل سروسز سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے ڈیٹا کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے زیادہ سخت قوانین نافذ ہیں۔ اگست کے اوائل سے جرمن ٹیلی کام، جی ایم ایکس اور وَیب ڈاٹ ڈی ای جیسے اداروں نے ’ای میل میڈ اِن جرمنی‘ کے نام سے محفوظ ای میل سروسز کا آغاز کیا ہے۔

ڈوئچے ویلے کے استفسار پر جرمن ٹیلی کام نے یقین دلایا کہ غیر ملکی سروسز کو ڈیٹا تک رسائی نہیں دی جائے گی۔ تاہم ناقدین کے مطابق مکمل طور پر محفوظ ای میل کی ترسیل کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ NSA کی طرح کے ادارے کسی بھی مقام پر اس ڈیٹا کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں اور مختلف تکنیکی حربے استعمال کر کے ڈیٹا کو ڈی کوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔