1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

چین نے حملہ کیا تو امریکی فورسز تائیوان کا دفاع کریں گی

19 ستمبر 2022

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز تائیوان پر چینی حملے کا دفاع کریں گے، جو واشنگٹن کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے وضاحت پیش کی ہے کہ چین سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4H2YT
Symbolbild I Taiwan Militär
تصویر: Ann Wang/REUTERS

امریکی صدر جو بائیڈن نے 18 ستمبر اتوار کے روز کہا کہ چینی حملے کی صورت میں امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔ انہوں نے 60 منٹ کے ایک پروگرام میں انٹرویو کے دوران یہ بات کہی۔

بائیڈن نے کیا کہا؟

انٹرویو کے دوران جب امریکی صدر سے یہ پوچھا گیا کہ اگر چین نے جزیرے پر حملہ کیا، تو کیا امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی؟ اس پر بائیڈن نے کہا کہ ''ہاں، اگر حقیقت میں، کوئی غیر معمولی حملہ ہوتا ہے تو۔''

تاہم بائیڈن نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکہ ''متحدہ چین'' کی پالیسی پر برقرار ہے اور تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔

اب فرانسیسی قانون سازوں کی تائیوان آمد

اس انٹرویو کے بعد ہی وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بھی وضاحت پیش کہ تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیل نہیں آئی ہے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے تائیوان کے مسئلے پر اپنی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں ابہام کی پالیسی پر قائم رہا ہے اور تائیوان میں فوجی مداخلت کے بارے میں واضح طور پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

تاہم جو بائیڈن کے اس تازہ بیان اور ماضی قریب میں تقریباً اسی طرح کے ایک اور بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس خطے میں واشنگٹن کی اسٹریٹیجک پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔

تائیوان کو براہ راست فوجی امداد کی جانب امریکہ کا پہلا قدم

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا، ''صدر اس سے پہلے، بشمول رواں برس کے اوائل میں ٹوکیو میں، بھی یہی بات کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس کے بعد بھی یہ واضح کیا تھا کہ ہماری تائیوان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ سچ ہے۔''

Symbolbild I Taiwan Militär
چین نے پیلوسی کے دورے کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ ''آگ سے کھیل رہا ہے'' اور اس نے جزیرے کے آس پاس فوجی مشقیں شروع کر دی تھیںتصویر: Ann Wang/REUTERS

گزشتہ مئی میں جو بائیڈن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو کیا امریکہ اس میں عسکری طور پر ملوث ہو گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا تھا، ''ہاں... ہم نے یہی عزم کیا ہے۔'' تاہم اس وقت وائٹ ہاؤس نے اس بیان کو بھی تیزی سے واپس لے لیا تھا اور کہا تھا کہ تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں آئی ہے۔

تائیوان پر بڑھتی ہوئی کشیدگی

گزشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائی پے کے دورے کے سبب تائیوان پر بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس وقت چین نے پیلوسی کے دورے کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ ''آگ سے کھیل رہا ہے'' اور اس نے جزیرے کے آس پاس فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔ چین اسے اپنا ہی علاقہ سمجھتا ہے۔

اس کے بعد فرانس کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بھی تائیوان کا دورہ کیا۔

اس ماہ کے اوائل میں تائیوان کے وزیرخارجہ جوزف وو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا تھا کہ چین مستقبل میں اس جزیرے پر حملے کے لیے اپنی حکمت عملیوں کا انکشاف کر رہا ہے۔

دو ستمبر کو ہی امریکی محکمہ خارجہ نے تائیوان کے لیے تقریبا ًسوا ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے ایک ایسے معاہدے کی منظوری دی تھی، جس میں طیارہ شکن اور ہوا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور ریڈار کی نگرانی کے نظام کی فروخت شامل تھی۔

امریکہ تائیوان کو بڑے پیمانے پر مسلح کرنا چاہتا ہے، رپورٹ

کانگریس کے منظور کردہ ایک حالیہ قانون  میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو تائیوان کے لیے فوجی سامان فروخت کرنے کی ضرورت ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

چین کی تائیوان کے قریب فوجی مشقیں، تائیوانی ماہی گیر خوفزدہ