1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آرٹمیکسیکو

اپنی ذات میں رنگ بھرنے والی فریدہ کاہلو کون تھیں؟

10 مئی 2022

زندگی سے محبت کرنا ایک ہنر ہے اور یہ ہنر ہم میں سے بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتا ہے۔ محبت کا یہ ہنر اپنے ساتھ کچھ اور تقاضے بھی لے کر آتا ہے، جیسے کہ اپنے آپ سے محبت کرنا اور اس محبت کی تکمیل کے لیے ہر عمل سے گزر جانا۔

https://p.dw.com/p/4B4wx
«Frida Kahlo: Making Herself Up» - Ausstellung in London
تصویر: Nickolas Muray/dpa/picture alliance

ہر قسم کے حالات میں اپنے جسم کے ساتھ، اپنے خیالات کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ کھڑے رہنا۔ جو اپنے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے کیسے مان لیا جائے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ٹھیک سے کھڑے ہوتے ہوں گے؟

 آج میں ایسی ہی ایک شخصیت کا قصہ سنانے جا رہی ہوں، جس نے خود سے پیار کیا اور خود اپنا ساتھ دیا۔ وہ مصورہ تھیں اور انہوں نے اپنے ہی عکس میں رنگ بھرے۔ ان رنگوں کے ذریعے انہوں نے زندگی کی ناقابل بیاں تلخیوں کو اظہار کی زبان بخشی۔ وہ کہتی تھیں، ’’میں نے اپنے دکھوں کو شراب میں ڈبونے کی کوشش کی لیکن ان کمبختوں نے تیرنا سیکھ لیا۔‘‘

فریدہ کاہلو نے جذبات کی تکلیف کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے جسمانی درد کو بصری علامت فراہم کی ہے۔ وہ ایک ایسی حقیقت پسند تھیں، جنہوں نے اپنے اندر کا پردہ فاش کرتے ہوئے جسم کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی حالت اور ریزہ ریزہ روح کو سب کے سامنے عیاں کیا۔  شاید دنیا نے انہیں جیتے جی مار دیا تھا اور اب مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

دنیا میں ان کا شمار دل موہ لینے والے مصوروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ 1907ء میں میکسیکو شہر میں پیدا ہونے والی فریدہ کاہلو مصوری کے ساتھ ساتھ فطرت اور خود سے محبت کرنے کا ہنر بھی جانتی تھیں۔ زندگی کے مختلف مراحل میں درد اور تکلیفیں ان کے تجربات کا حصہ بنے رہے اور اس درد ناک حقیقت کو فریدہ نے کینوس پر اتارنا شروع کر دیا۔

DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
صبا حسینتصویر: Privat

چھ سال کی عمر میں انہیں پولیو کا مرض لاحق ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ نو ماہ سے زیادہ بستر پر رہیں۔ ابھی پولیو سے پہنچنے والے نقصان سے لڑ ہی رہی تھیں کہ ایک خطرناک حادثہ پیش آ گیا۔ اسکول سے واپسی پر جس بس میں چھوٹی فریدہ سوار تھیں، وہ ایک کار سے ٹکرا گئی۔ فریدہ کی ریڑھ کی ہڈی، کمر اور کولہوں میں مہلک قسم کی چوٹیں آئیں اور ایک بار پھر وہ بستر کے حوالے ہو گئیں۔

 اس حادثے نے ان کا ڈاکٹر بننے کا خواب بھی چکنا چور کر دیا۔ والدین نے ان کے بستر کے ساتھ ایک خاص قسم کا کینوس لگوا دیا، جس نے ان کے جذبات کو اظہار کی ایک نئی راہ دکھائی۔ اس کینوس کے اوپر ایک آئینہ بھی رکھا گیا تھا تاکہ فریدہ اپنا چہرہ بھی دیکھ سکیں۔

جب انہوں نے مصوری کا آغاز کیا تو اس دنیا کو اپنے واحد نظریے سے رنگنا شروع کیا، وہ نظریہ، جو ان کے اپنے اندر پنپ رہا تھا۔ فریدہ کاہلو کی پینٹنگز ان کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے کا موقع فراہم کرنے لگیں۔ انہوں نے دوستوں کے خیالات، خاندان والوں کے جذبات، زندگی کے تجربات اور روحانی مناظر کو پینٹنگ کی صورت میں زبان فراہم کی۔ لیکن یہ ان کے سحر انگیز سیلف پورٹریٹ تھے، جنہوں نے پہلی بار دنیا کی توجہ حاصل کی۔

ڈیاگو رویرا وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے فریدہ اور ان کی پینٹنگز کو دریافت کیا۔ ڈیاگو رویرا ایک مشہور میکسیکن پینٹر تھے۔ رنگوں کی ہم آہنگی اتنی گہری تھی کہ کچھ عرصے بعد یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ فریدہ ڈیاگو سے نمایاں طور پر چھوٹی تھیں اور دونوں کی عمروں میں تقریباﹰ بیس سال کا فرق تھا۔

 ڈیاگو قد میں بھی فریدہ سے کچھ لمبے تھے، جس کی وجہ سے دونوں کو ہاتھی اور کبوتر سے تشبیہات دی جاتی تھیں۔ شادی کے دوران دونوں کے کئی دیگر لوگوں سے تعلقات بھی استوار ہوئے اور بعدازاں ایک وقت وہ بھی آیا کہ دونوں طلاق لے کر علیحدہ ہو گئے لیکن ایک سال بعد پھر سے شادی کر لی۔

یہی وجہ تھی کہ شادی کے بعد فریدہ کا تعارف ڈیاگو رویرا کی بیوی کے طور پر ہوا کرتا تھا لیکن ہنر کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے فریدہ کا قد بہت اونچا ہو گیا۔ ایک وقت ایسا آیا، جب ڈیاگو کا تعارف فریدہ کاہلو کے شوہر کے طور پر ہونے لگا۔

فریدہ کاہلو کی 143 پینٹنگز میں سے 55 سیلف پورٹریٹ ہیں۔ چھوٹے سیلف پورٹریٹ، جو میکسیکو کے لوک فن سے متاثر ہیں۔ ان کا کام براہ راست سیاسی نہیں ہے لیکن ان کی پینٹنگز اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ فریدہ کا اپنا ذہن سیاسی ہے۔ ان کی مصوری میں پھولوں، پودوں اور تتلیوں کو بھی اظہار کی زبان ملتی ہے۔ فریدہ کہا کرتی تھیں، ’’میں پھول اس لیے پینٹ کرتی ہوں تاکہ وہ مر نہ جائیں۔‘‘

بدقسمتی سے فریدہ کی صحت خراب ہوتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے ان کے وجود کو نت نئے تجربات کا تختہ بنا دیا تھا۔ ان کے 30 سے ​​زیادہ بڑے آپریشن ہوئے۔ اس دوران جو فریدہ کے جسم پر گزری، وہ انہوں نے کینوس پر منتقل کر دیا۔ یہ بہادری کی ایک ناقابل یقین سی کہانی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ انہوں نے اُس پینٹنگ میں بیان کیا ہے، جس میں ٹوٹی ہوئی ایک ریڑھ کی ہڈی دکھائی گئی ہے۔

1953ء میں ان کے فن پاروں کی سولو نمائش کے افتتاحی دن پر فریدہ اور ان کا بستر ایمبولینس کے ذریعے گیلری میں  پہنچایا گیا۔ یہ ان کے اندر جینے کی ایک ضد تھی، جو بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ انہیں یہ ادراک ہو گیا ہو کہ زندگی کے اس سفر میں وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ وہ محض 47 سال کی تھیں، جب زندگی کی ڈور کٹ گئی اور وہ جہانِ عدم میں جا بسیں۔

گینگرین کی وجہ سے جب فریدہ کی ٹانگ کا کچھ حصہ کاٹا گیا تو انہوں نے کہا تھا، ’’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے، جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر ہیں۔‘‘

فریدہ زندگی بھر چل نہیں سکیں لیکن انہیں خود سے محبت کرنے، اپنی زندگی میں رنگ بھرنے اور آسمان کی وسعتوں میں اڑنے سے کوئی نہیں روک سکا، ایک ایسا رنگ بھرا آسمان، جس کی خالق وہ خود تھیں۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26