1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنگ سان سوچی کی اپنے وکلا سے پہلی ملاقات

1 مارچ 2021

میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے ایک ماہ بعد نظربند رہنما آنگ سان سوچی کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ عوامی مظاہروں کے خلاف فوجی کارروائی میں کم از کم اٹھارہ ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

https://p.dw.com/p/3q394
Tahiland Bangkok | Myanmar Protest nach Militärputsch
تصویر: Mladen Antonov/AFP/Getty Images

آنگ سان سوچی کے وکلا کے مطابق انہوں پیر کو عدالت میں وڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا۔ وکلا کے مطابق ان کی صحت بظاہر ٹھیک نظر آ رہی تھی۔ پہلی فروری کو فوج کی طرف سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں گھر پر نظر بند کردیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ اب تک کہیں نظر نہیں آئیں۔

حالیہ برسوں میں میانمار کی پچہتر سالہ نوبیل انعام یافتہ رہنما روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر دنیا میں خاصی متنازعہ رہی ہیں۔ تاہم ملک کے اندر فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے بعد سے ان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

مزید مقدمات قائم

فوجی حکام نے آنگ سان سوچی پر پہلے دو مقدمات قائم کیے، جن میں ان پر ملک میں غیرقانونی طور پر وائرلیس سیٹس درآمد کرنے اور قدرتی آفات سے متعلق قومی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہے۔

Myanmar | protestierende buddhistische Nonnen in Mandalay
تصویر: AP Photo/dpa/picture alliance

تاہم پیر کو ان پر مزید الزامات عائد کیے گیے، جن میں الیکشن مہم کے دوران کورونا سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی اور لوگوں کو اشتعال دلانا شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوجی جنتا کی طرف سے آنگ سان سوچی پر مقدمات قائم کرنے کا مقصد انہیں مستقبل کے انتخابات سے پہلے نااہل قرار دلوانا ہو سکتا ہے۔

مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری

میانمار میں گزرتے دنوں کے ساتھ عوامی مظاہروں میں شدت دیکھی گئی جنہیں کچلنے کے لیے پولیس اور فوج کی طرف سے طاقت کا استعمال بھی بڑھتا گیا ہے۔  اتوار کو ملک کے مختلف حصوں سے اٹھارہ افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

Myanmar I Proteste in Yangon
تصویر: Theint Mon Soe/SOPA/ZUMA/picture alliance

اس کے باوجود پیر کی صبح ینگون شہر میں لوگ پھر فوجی جنتا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔

سیاسی گرفتاریوں پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم کے مطابق، حکام نے اتوار کو کوئی ایک ہزار کے قریب لوگوں کو حراست میں لے لیا، جس کے بعد پچھلے ایک ماہ کے دوران گرفتاروں کی تعداد ایک ہزار ایک سو بتیس ہو گئی ہے۔

عالمی مذمت

اقوام متحدہ نے میانمار کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹیرش نے کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کرتے کرتے ہوئے اس "ناقابل قبول" قرار دیا۔

میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب ٹام اینڈریو نے اتوار کے روز ہونے والی ہلاکتوں پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ فوجی جنتا کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ "وہ میانمار کے عوام پر اپنی چڑھائی جاری رکھیں گے۔"

Myanmar Yangon | nach Militärputsch | Protest der Karen
تصویر: Hkun Lat/Getty Images

امریکا نے بھی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی سخت مذمت کی ہے جبکہ آسیان ممالک کی علاقائی تنظیم نے میانمار کے حالات پر منگل کو خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کے جواب میں پیر کو میانمار کی وزارت خارجہ نے ایک تفصیلی بیان جاری کیا، جس میں فوجی حکومت کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے فیصلے کی وجوہات کو دہرایا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ حکومت قومی و بین الاقوامی قوانین کے تحت حتی الامکان احتیاط سے کام لے رہی ہے تاکہ پرتشدد مظاہروں پر قابو پانے میں کم سے کم جانی نقصان ہو۔

اے پی، روئٹرز (ش ج، ع ح)