1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آفیشل سیکرٹ ایکٹ: ان کیمرہ سماعت تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
21 اگست 2023

اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے آج شاہ محمود قریشی کے مقدمے کی ان کیمرہ سماعت کی، جس پر بہت سے حلقوں کی طرف سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4VPdo
شاہ محمود قریشی
آج شاہ محمود قریشی کے مقدمے کی ان کیمرہ سماعت ہوئی، جس پر متعدد حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہےتصویر: Salahuddin/REUTERS

حکومت پاکستان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق مقدمات کے لیے خصوصی عدالت قائم کر دی ہے۔ اس عدالت اور اس میں ان کیمرہ سماعت دونوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ ان کیمرہ سماعت اور ان عدالتوں کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کیمرہ سماعت کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے بلکہ یہ آئین کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ آج جب پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام اباد میں قائم ایک اسپیشل عدالت میں پیش کیا گیا تو مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابو الحسنات نے غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیا۔

خیال رہے کہ دو روز قبل سائفر گمشدگی کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ آج کی سماعت ان کیمرہ تھی۔

 بیرسٹر گوہر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ان کیمرہ سماعت سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن اگر معاملہ فوجی عدالتوں میں جاتا ہے تو پھر وہ کھلی سماعت نہیں ہو گی۔‘‘

پاکستان سپریم کورٹ، اسلام آباد
آفیشل سیکرٹ ایکٹ: ان کیمرہ سماعت تنقید کی زد میںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ان کیمرہ سماعت کا نشانہ پی ٹی آئی؟

تاہم پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما اسپیشل کورٹ کے قیام اور ان کیمرہ سماعت دونوں کو ہی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے متعمد خاص فیصل شیر جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر مملکت عارف علوی کی ٹویٹس کے باوجود اسپیشل کورٹس آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت درج شدہ مقدمات کی سماعت کے لیے قائم کر دی گئی ہیں، جو قانونی ماہرین کی رائے میں غلط ہیں۔‘‘

فیصل شیر جان کے مطابق ان کیمرہ سماعت کا مقصد پی ٹی آئی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف ایک بیانیہ تیار کرنا ہے۔

اسلام اباد سے تعلق رکھنے والی صحافی جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ہر حالت میں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹیوں کو ختم کرنے کا عمل اور وزرائے اعظموں کو جیل بھیجنے کی روایت ہمارے ملک میں نئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی وزیر اعظم اپنی مدت بھی نہیں پوری کر سکا۔‘‘

جویریہ صدیق کے مطابق اس طرح کے مقدمات کی سماعت اوپن کورٹس میں ہونا چاہیے تاکہ عوام کو حقائق کا پتہ چل سکے، ''بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکومت حقائق چھپانا چاہ رہی ہے۔ اگر حکومت کو کوئی خدشہ ہے تو وہ ایسے رہنماؤں کے نام ای سی ایل میں ڈال سکتی ہے لیکن ان کیمرہ سماعت کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی طور پر پی ٹی آئی کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے۔‘‘

حد سے زیادہ راز داری

تاہم کچھ مبصرین کے خیال میں اس طرح کی سماعت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستانی قانون ان کیمرہ سماعت کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تاہم پاکستان میں کئی معاملات میں حد سے زیادہ راز داری سے کام لیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کی ملاقات ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے ساری چیزیں راز داری میں رکھی جا رہی ہیں۔‘‘

عمران خان عدالت میں پیش ہوتے ہوئے
فیصل شیر جان کے مطابق ان کیمرہ سماعت کا مقصد پی ٹی آئی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف ایک بیانیہ تیار کرنا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ان کیمرہ سماعت انصاف کے خلاف؟

کئی قانونی ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کیمرہ سماعت پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق ہے۔ لیکن ان کے خیال میں 1923 میں بننے والا آفیشل سیکرٹ ایکٹ ایک نو آبادیاتی قانون تھا، جس کا اطلاق ایک آزاد ملک میں اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ ان کیمرہ سماعت ملکی اور بین الاقوامی قانون میں، جو انصاف کے پیمانے ہیں، ان کے خلاف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب عدالت کھلی سماعت کرتی ہے، تو اس سے ملزم کے حقوق کو سلب کرنا یا ان کی خلاف ورزی کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ عوام کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ ملزم کے کہیں حقوق سلب تو نہیں کیے جا رہے لیکن ان کیمرہ سماعت میں شفافیت کا فقدان ہوتا ہے اور وہاں پر سرکاری وکیل، جو آ کر باہر بتا دے، بس اسی پر یقین کرنا پڑتا ہے۔‘‘

رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ ان معاملات میں ان کیمرہ سماعت بالکل نہیں ہونی چاہیے، ''یہ ان کیمرہ سماعت ایک سیاسی رہنما کے خلاف ہو رہی ہے۔ اگر اسی طرح یہ ان کیمرہ سماعت چلتی رہی اور اس کا فیصلہ آیا، تو وہ فیصلہ انتہائی متنازعہ ہو گا کیونکہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن ہو رہا ہے اور ایسے فیصلے کی قبولیت بڑی مشکل ہو گی۔‘‘

مضبوط جمہوریت اور ان کیمرہ سماعت

مضبوط جمہوریتوں میں ان کیمرہ سماعت کو مثبت نہیں سمجھا جاتا اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زیادہ تر سماعتیں کھلی عدالتوں میں ہوتی ہیں۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون بیرسٹر گل نواز خان کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں، جہاں پر ان کیمرہ سماعت ہو سکتی ہے اور ایسے قوانین برطانوی قانون میں بھی موجود ہیں۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تاہم مضبوط جمہوریتوں میں زیادہ تر مقدمات کو کھلی عدالتوں میں چلایا جاتا ہے تاکہ عوام کو حقائق پتہ چل سکے اور ان کیمرہ سماعت کو شاذو نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

بیرسٹر گل نواز خان کے مطابق برطانیہ میں حساس معاملات پر بھی بحث کھلے عام ہوتی ہیں، ''عراق پر حملے سے متعلق پارلیمنٹ میں جو بحث و مباحثے ہوئے، وہ سب عوام کے لیے کھلے عام تھے، حالانکہ ٹونی بلیئر نے جو تقریر کی، اس میں بہت سارے مسائل قومی سکیورٹی سے متعلق تھے لیکن اس کے باوجود وہ بحث سب کے سامنے تھی۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے حکومتی ترجمان مرتضی سولنگی کو حکومتی موقف جاننے کے لئے پیغامات بھیجے لیکن ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔