1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُدھر تم، اِدھر ہم .. مگر ذرا ہٹ کے

7 جولائی 2021

امریکی تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق بھارت کے بہتر فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا گوشت کھانے والا ہندو نہیں ہو سکتا جبکہ اڑتالیس فیصد کا کہنا ہے کہ مندر نہ جانے والا ہندو نہیں ہو سکتا۔

https://p.dw.com/p/3w98H
DW Urdu Blogger Muhmmad Akram
تصویر: Privat

سروے رپورٹ کے مطابق ستتر فیصد بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سور کا گوشت کھانے والا مسلمان نہیں ہو سکتا جبکہ اکسٹھ فیصد کا کہنا ہے کہ مسجد نہ جانے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ سروے رپورٹ کے مطابق بھارتی ہندو اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے ہی دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے اکثر یا تمام تر دوست صرف ہندو ہیں۔

 سکھ اور جین مت کے پیروکار، جو بھارت میں آبادی کے اعتبار سے ایک مہین سی اقلیت کی حیثیت تعلق رکھنے ہیں، ان کا بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے ہی دوستی رکھنا پسند کرتے ہیں۔ پینتالیس فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کہ انہیں پڑوسی کی حیثیت میں بھی صرف ہندو ہی پسند ہیں جبکہ چھتیس فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں مسلمان کا پڑوسی ہونا پسند نہیں۔

 جین مت سے تعلق رکھنے والے چون فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں پڑوس میں کوئی مسلمان قبول نہیں جبکہ بانوے فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ہندو پڑوسی ہی بہتر ہے۔ اسی سروے رپورٹ کے مطابق اکثریتی بھارتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ حقیقی انڈین ہونے کے لیے ہندو ہونا اور ہندی زبان بولنا ضروری ہے۔ اس سوچ کے حامل شمالی اور وسطی بھارت میں رہنے والے ساٹھ فیصد ہندوؤں نے دو ہزار انیس کے عام انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔

 بھارت کی جنوبی ریاستوں میں بسنے والے ہندوؤں نے انتخابات میں اس سوچ کو رد کردیا تھا۔ پیو ریسرچ سینٹر کی یہ رپورٹ پانچ جولائی کو پاکستان کے ڈان اخبار میں واشنگٹن ڈیٹ لائن سے شائع ہوئی۔ بھارت میں کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا اس کا ذکر ذرا آگے چل کے، ابھی پاکستان کے پانچ جولائی پر ایک نظر کہ یہ وہ دن ہے کہ جسے پاکستان میں ایک بڑی اکثریت یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھتی ہے کہ اسی تاریخ کو چوالیس برس قبل ایک ایسی فوجی حکومت قیام میں لائی گئی، جس نے اپنی بقا کے لئے مذہبی انتہاپسندی کو اتنا فروغ دیا کہ گزشتہ صدی کی پچاسویں، ساٹھویں اور سترویں دہائیاں مذہبی انتہاپسندی کے موجودہ اور بڑھتے ہوئے عفریت کے حوالے سے ایک الگ تھلگ اور دوسری ہی دنیائیں محسوس ہوتی ہیں۔

 ان چوالیس برسوں میں جہاں مذہبی اور مسلکی منافرت کی آگ کو تواتر سے اندرونی اور بیرونی ہوا دی گئی، وہیں اب حالات یہ ہیں کہ مذہبی و مسلکی نظریات اور ان کی تفسیرات و تشریحات تو ایک طرف  خدا کے تصور کو آفاقی بلندیوں سے نیچے لا کر اس کی ایسی پرائیویٹائزیشن  کر دی گئی ہے  کہ جیسے فرقے اور اس کے نظریات و تعلیمات ہی نہیں سب کا خدا بھی الگ الگ اور ذاتی ذاتی ہو گیا ہے۔

زیادہ دور نہ جائیے آج سے چند دہائیوں پہلے تک ہر مکتبہ فکر کے علما خدا کا ذکر ایک تصور کے طور پر ہی پیش کرتے ہوئے اس کی صفات بیان کرتے نظر آتے تھے۔ مگر اب ہوتے ہوتے بات اس نہج پر پہنچا دی گئی ہے کہ  مذہبی و مسلکی آقاؤں نے خدا اور اس کی صفات کو بھی اپنے اپنے مذہبی و مسلکی سانچے میں ڈھالنا شروع کر دیا ہے اور اسے تصور محض نہیں کوئی ٹھوس شے یا ذات بنا کر پیش کرتے ہوئے اسے مذہبی کاروبارکا جزولنفیک بنا دیا ہے۔

 پہلے کبھی بجلی کے پنکھے بنانے والے ننانوے فیصد کاپر کے استعمال کا دعویٰ کر کے اپنی مصنوعات بیچتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ وسطی پنجاب کے جدید علاقوں میں صد فیصد ایک یا دوسرے مسلک رکھنے والوں کی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں اُگنا شروع ہو چکی ہیں۔

پانچ جولائی انیس سو ستتر کو پاکستان کو، جس مذہبی اساس پر لانے کا، جو کام شروع ہوا، وہ اب بھی زور و شور سے جاری و ساری ہے اور ایسا منہ زور عفریت بنا دیا گیا ہے، جسے کوئی زی شعور نکیل ڈالنے کا تو دور ایسا کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔

پانچ جولائی انیس سو ستتر کا بظاہر انڈیا سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا کہ پاکستان و بھارت ہمسائے ہونے کے باوجود تعلقات کے لحاظ سے تب بھی دوری کی انتہاؤں پر ہی تھے، اب بھی ہیں اور آگے نجانے کب تک رہیں گے۔ مگر زبان اور رہن سہن کے بہت سے اشتراکات کی بدولت یہ کبھی زیادہ دور بھی نہ جا سکے جبکہ اندرونی سیاسی معاملات کو من چاہی ڈگر پر رکھنے اور عوام کو نفرت بیچنے  کے لئے ایک دوسرے کو خیالی یا حقیقی دشمن کے طور پر استعمال کرتے رہے۔

 دیگر بہت سی صورتوں کے ساتھ انڈیا کا پانچ جولائی نوے کی دہائی کی ابتداء میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک سے شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے، جو ابھی بھی مختلف شکلوں میں انتہاؤں کو چھوتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں اس دوران بہرحال ایک یہ خوش کن منظر سیاسی محاذ پر ضرور دیکھنے میں آیا کہ عوام نے بھارت کی نفرت پر سیاست کو مسترد کرنا شروع کر دیا۔ تاہم پاکستانی ہندؤوں کو دیگر مذہبی آبادیوں سمیت آج بھی اکثریتی مسلم آبادی کے مقابلے بہر حال دوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں جیسے سلوک کا ہی سامنا ہے، جبکہ کئی مذہبی اقلیتوں کو تو اکثریت اچھوت تک کا درجہ دینے کو بھی تیار نہیں اور ان کے لئے 'سر تن سے جدا‘ کا نعرہ تک موجود ہے۔

 دوسری طرف بھارت کی سیاست میں نوے کی دہائی سے ہی طاقت پکڑتا پاکستان سے نفرت کا دقیانوسی پہلو آج بھی کھل کھیل رہا ہے اور بھارتی جنتا پارٹی اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کے ذریعے اسے نئی بلندیوں پر لے جانے کی طرف گامزن نظر آتی ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں بتا گیا ہے کہ مسلمانوں کی نسبت انڈیا کے ہندوؤں کی بڑی اکثریت سمجھتی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات کے حوالے سے ایک اچھا عمل ثابت ہوئی۔ اڑتالیس فیصد انڈین مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات میں بگاڑ آیا، جبکہ صرف 0.3 فیصد مسلمانوں کا کہنا ہے ہندوستان کا بٹوارہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات کے حوالے سے اچھا ثابت ہوا۔ تینتالیس فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کہ بٹوارے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات پر اچھا اثر ڈالا جبکہ سینتیس فیصد کی رائے میں تقسیم سے تعلقات پر بہت برا اثر پڑا۔ سکھوں کا موقف اس لحاظ مسلمانوں سے بھی آگے بڑھ کر سامنے آیا ہے اور دو تہائی تقریباً چھیاسٹھ فیصد سکھوں کا کہنا ہےکہ بٹوارے سے ہندو مسلم تعلقات میں بگاڑ آیا۔

اب اس رپورٹ کا سب سے اہم پہلو، جس سے اندازہ ہو سکے کہ دو الگ الگ مذہبوں کے ماننے والوں کے درمیان بگاڑ کی بنیادی وجہ کیا مذہبی عقائد ہیں یا ان عقائد کا دھندے کرنے والے مولوی یا پروہت… جیسا کہ حرف آغاز میں ذکر کیا گیا کہ سروے کے مطابق  بہتر فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کہ بیف کھانے والا ہندو نہیں ہو سکتا چاہے وہ بھگوان کو مانے یا نہ مانے، مندر جائے یا نہ جائے یعنی ایمان کا دارومدار بھگوان پر ایمان نہیں بلکہ بیف کھانے یا نہ کھانے کے ساتھ ہے۔ اسی طرح ستتر فیصد بھارتی مسلمانوں کا ماننا ہے کہ سور کا گوشت کھانے والا مسلمان نہیں ہو سکتا چاہے وہ خدا کو مانے یا نہ مانے، مسجد میں جانے یا نہ جائے۔

مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کی بنیاد پر عدم رواداری کی انڈیا اور پاکستان کی الگ الگ پریمئیر لیگ ایک دوسرے کے کھلاڑیوں (ملاؤں) کو شامل کئے بغیر ایسی ہی کھیلی جا رہی ہیں، جیسے کہ کرکٹ کی پریمئیر یا سپر لیگز، مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کھیل تو ایک ہی ہے اور کھلاڑی بھی ایک جیسے اور مقاصد بھی ایک جیسے کہ کچھ بھی ہو جائے عوام یا جنتا  کو ہوش میں نہیں آنے دینا اور ان کو دقیانوسی مذہبی تصورات سے کسی صورت بھی آزاد نہیں ہونے دینا کہ کھرب ہا ڈالرز کی اس انڈسٹری کو دوام ہی منافرت اور انتہاؤں کو چھوتی مذہبیت سے حا صل ہے۔ ہمارے خطے میں اسے کسی زوال کا کوئی اندیشہ نہیں۔

اسی لیے تو علامہ اقبال نے ہر طرح کے ملا کو مخاطب کرتے ہو کہا تھا،

دین کافر فکرو تدبیر و جہاد

دین ملاء فی سبیل اللہ فساد