اُبھرتی ہوئی معیشتوں کا مستقبل
15 مارچ 2012جرمنی کے اقتصادی میڈیا نے عالمی معیشت میں نمو کی تیز رفتاری کے خاتمے کی پیش گوئی کی ہے ۔ نئی اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتیں جنہیں BRIC ریاستیں کہا جاتا ہے، گزشتہ ایک دہائی سے عالمی اقتصادیات کے انجن کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ مستقبل میں یہ ممالک اپنا یہ کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔ اس کی وجہ گرتی ہوئی شرح نمو ہے۔ اس صورتحال کے عالمی اقتصادیات پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے ۔
دس سال قبل ایک امریکی ماہر مالیات نے دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں کو BRIC کے مُخفف سے موسوم کرتے ہوئے ایک ٹریڈ مارک بنا دیا تھا۔ اس گروپ میں برازیل، روس، بھارت اور چین شامل ہیں۔ ایک طرف خام مال کی قدرتی نعمت سے مالامال برازیل اور روس دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے رہے تو دوسری جانب دنیا کے آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑے ملک چین اور بھارت اپنی اپنی افرادی قوت اور کم مزدوری کے عوض کارکنوں کی فراہمی سے بہترین فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے۔۔
جرمنی کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے ڈوئچے بینک سے منسلک اُبھرتی ہوئی اقتصادی منڈیوں کی ایک ماہر لاؤرا لانسینی کے مطابق،’ ہم چھ سے آٹھ تک اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں کی قطار دیکھ رہے ہیں۔ یہ ریاستیں بہت بڑی بھی ہیں اور نہایت تیزی سے ترقی بھی کر رہی ہیں۔ مثلاﹰ انڈونیشیا، پولینڈ ، میکسیکو اور کوریا۔ ظاہر ہے کہ ان ممالک کی ترقی کی رفتار ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ تاہم یہ سب ہی نہایت پُرکشش منڈیاں ہیں اور بڑی صلاحیتوں کی حامل۔ کافی حد تک یہ ترقی کر چکی ہیں۔ یہ مختلف النوع گروپ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ممالک سرمایہ کاروں اور آجرین کے لیے بہت زیادہ کشش رکھتے ہیں‘۔
چین اور بھارت میں رواں برس یعنی 2012 کے دوران نمو کی شرح سات فیصد تک رہنے کی توقع ہے جو ہے تو مقابلتاﹰ کم لیکن صنعتی ممالک کے مقابلے میں یہ پھر بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ چین اور بھارت میں گزشتہ برس کے مقابلے میں شرح نمو گری ہے۔ پچھلے سال یہ شرح دس فیصد سے زیادہ تھی۔ اس کمی کی وجہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ چین اور بھارت دونوں ہی خام مال بھاری مقدار میں درآمد کرتے ہیں۔
روس کی ترقی کی راہ میں کافی حد تک رکاوٹ اُس کا اپنے تیل پر یکطرفہ انحصارہے۔ روس کو اپنی معیشت کو جدید اور وسیع تر بنانا ہوگا۔ تاہم روس میں پائی جانے والی بدعنوانی اور کاروباری معاملات میں ریاستی مداخلت کے سبب سرمایہ کار بہت خوف زدہ ہیں۔ روس میں جس کے پاس سرمایہ ہے، وہ اُسے بیرون ملک پہنچانے کی کوشش میں ہے۔ ایک سنجیدہ اندازے کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2011 ء میں روس سے تقریباﹰ 85 بلین ڈالر کے برابر سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا گیا۔
رپورٹ: کلاؤس اُلرش / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک