1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اين ايس اے‘ سپر کمپيوٹر کے تعاقب ميں، واشنگٹن پوسٹ

عاصم سليم3 جنوری 2014

امريکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ملکی قومی سلامتی کا ادارہ ’این ایس اے‘ ايک ايسا کمپيوٹر تيار کرنے کے عمل ميں مصروف ہے، جس کے ذريعے تمام انکرپشن پروگراموں کو عبور کرنا يا ان کا توڑ نکالنا ممکن ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1Aksn
تصویر: Fotolia/Gina Sanders

يہ نيا کمپيوٹر تمام کمپيوٹر انکرپشنز پڑھنے کی صلاحيت کا حامل ہوگا۔ انکرپشن معلومات کو مخصوص کوڈز کے ذريعے چھپانے کے عمل کو کہا جاتا ہے، جس کا مقصد ڈيٹا کو دوسروں کی نظر سے چھپانا ہے۔ نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے ان اقدامات کا انکشاف امريکی اخبار واشنگٹن پوسٹ ميں ايجنسی کے سابق اہلکار ايڈورڈ سنوڈن کی جانب سے جاری کردہ دستاويزات کا حوالہ ديتے ہوئے کيا گيا ہے۔

اخبار کی جمعرات دو جنوری کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق يہ کمپيوٹر انتہائی تيز رفتار ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پائی جانے والی تمام اقسام کی انکرپشنز کا توڑ نکالنے کی صلاحيت کا حامل ہوگا۔ خواہ حکومتوں کی ’ٹاپ سيکرٹ معلومات‘ ہوں يا بينکوں، طبی اداروں اور کاروباری مراکز کے ريکارڈ، کچھ بھی اس کمپيوٹر کی پہنچ سے دور نہ ہوگا۔

سنوڈن روس ميں عارضی سياسی پناہ حاصل کرنے کے بعد ان دنوں وہيں مقيم ہيں
سنوڈن روس ميں عارضی سياسی پناہ حاصل کرنے کے بعد ان دنوں وہيں مقيم ہيںتصویر: picture alliance/AP Photo

امريکا ميں ’پينيٹريٹنگ ہارڈ ٹارگٹس‘ نامی 79.9 ملين ڈالر کے ايک تحقيقی پروگرام کے تحت اس کمپيوٹر کو تيار کيا جا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ملک ميں غير سرکاری تنظيميں بھی ايسے ہی کسی کمپيوٹر کے تعاقب ميں ہيں ليکن يہ بات ابھی واضح نہيں کہ کمپيوٹر کی تياری کس مرحلے ميں ہے۔

جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے کے مطابق دنيا بھر کے سائنسدان ايسے ہی کسی کمپيوٹر کو تيار کرنے کے عمل ميں مصروف ہيں اور اس سلسلے ميں کئی برسوں سے تحقيق اور کوششيں جاری ہيں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ايسے ’سپر‘ کمپيوٹر کی مدد سے کئی شعبوں ميں ان معاملات کی تہہ تک پہنچا جا سکے گا، جو اب تک محض کتابی ہيں۔

ڈی پی اے کے مطابق اگرچہ يہ بات ابھی واضح نہيں ہے کہ اين ايس اے کمپيوٹر کی تياری کس مرحلے تک پہنچی ہے البتہ سنوڈن کی جانب سے جاری کردہ دستاويزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دوسرے ممالک کی مقابلے ميں امريکا اس عمل ميں زيادہ آگے ہے۔

دوسری جانب ميسا چوسٹس انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی کے ايسوسی ايٹ پروفيسر اسکاٹ آرنسن کا ماننا ہے کہ يہ ممکن نہيں کہ ايسے کسی کمپيوٹر کی تياری ميں نيشنل سکيورٹی ايجنسی دنيا کے دیگر ممالک کے مقابلے ميں اتنا آگے ہو اورکسی کو اس کی خبر تک نہ ہو۔

واضح رہے کہ اين ايس اے کے سابق کانٹريکٹر ايڈورڈ سنوڈن نے اين ايس اے کی جانب سے امريکيوں کا ٹيلی فون ڈيٹا جمع کرنے کے بارے ميں گزشتہ برس انکشافات کيے۔ بعد ازاں انہوں نے امريکا کی قومی سلامتی سے متعلق اس ادارے کی جانب سے ملکی و عالمی سطح پر وسيع پيمانے پر کی جانے والی جاسوسی اور نگرانی کے پروگراموں کا پردہ فاش کيا۔ اسی سبب ان دنوں دنيا بھر ميں ’پرائيوسی‘ يا ذاتی معلومات کے حوالے سے بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کئی ملک اين ايس اے کی کارروائيوں سے خوش نہيں ہيں۔

اس کے برعکس اين ايس اے کا موقف ہے کہ دنيا بھر ميں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کو ناکام بنانے کے ليے اتنے وسيع پيمانے پر جاسوسی لازمی تھی۔ امريکی انتظاميہ مستقبل ميں ايجنسی کے کردار پر نظر ثانی کرنے کا عنديہ دے چکی ہے۔

امريکا کو مطلوب ايڈورڈ سنوڈن روس ميں عارضی سياسی پناہ حاصل کرنے کے بعد ان دنوں وہيں مقيم ہيں۔