ايران پر مغربی ممالک کی اقتصادی پابندياں اور زيادہ سخت
5 جنوری 2012برسلز ميں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ يورپی يونين کی طرف سے ايرانی تيل کی درآمد پر بھی پابندی لگانے کا ايک ابتدائی سمجھوتہ طے پا گيا ہے۔ امريکہ نے اس معاہدے کی تعريف کی ہےاوراعلان کيا ہے کہ امريکی وزير خزانہ ٹموتھی گائتھنر ايران کے مرکزی بينک پر نئی امريکی پابنديوں کے سلسلے ميں بات چيت کے ليے اگلے ہفتے چين جا رہے ہيں۔ امريکی وزارت خارجہ کی ترجمن نولينڈ نے کہا: ’’ ہم نہ صرف يورپ ميں اپنے قريبی اتحاديوں بلکہ دنيا بھر کے ممالک کی طرف سے اسی قسم کے اقدامات ديکھنا چاہتے ہيں۔‘‘
ايران پر اُس کے ايٹمی پروگرام کی وجہ سے پہلے ہی سے مغربی ممالک کی پابندياں عائد ہيں اور اب نئی پابنديوں سے تيل کی برآمد پر انحصار کرنے والی ايرانی معيشت مزيد غير مستحکم ہو جائے گی۔ اپنے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر ايران کی برہمی بہت واضح ہو چکی ہے۔ ايران کے فوجی اور سياسی رہنما خليج ميں امريکی موجودگی کی سخت مخالفت کر رہے ہيں اور انہوں نے يہ کہہ ديا ہے کہ اگر امريکی طيارہ بردار جہاز نے آبنائے ہرمز ميں داخل ہونے کی کوشش کی تو اُسے ايرانی بحريہ کی بھر پور طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ايران اپنے اوپر حملے يا ايرانی تيل کی برآمدات روکنے کی صورت ميں عالمی ضروريات کے 20 فيصد تيل کی گذر گاہ آبنائے ہر مز کو بند کر دينے کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔ يہ دھمکی خليج ميں ايران کی دس روزہ بحری مشق کے دوران دی گئی، جس ميں ايران نے خاص طورپر تين قسموں کے ميزائلوں کا تجربہ کيا جو بحری جہازوں کو غرق کر دينے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ امريکہ نے اپنی بحريہ کے خلاف ايرانی دھمکيوں کو رد کر ديا ہے اورکہا ہے کہ وہ خليج ميں اپنے جہازوں کا گشت معمول کے مطابق جاری رکھے گا۔
سعودی عرب کے بعد اوپيک کے سب سے زيادہ تيل برآمد کرنے والے ملک ايران پر دباؤ اور اُس کے اور امريکہ کے درميان فوجی کشيدگی کے امکان کی وجہ سے تيل کی قيمت ميں تيزی سے اضافہ ہوگيا ہے۔ ايران پہلے ہی مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی لگائی ہوئی اقتصادی پابنديوں کے مقابلے کے طريقے تلاش کرنے ميں مصروف ہے جن کی وجہ سے ملک ميں غير ملکی سرمايہ کاری کم ہو گئی ہے اور ايرانی تيل کی قيمت کی وصولی بہت پيچيدہ ہو گئی ہے۔ امريکہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے ايران پر يہ پابندياں اس ليے لگائی ہيں کيونکہ وہ يہ سمجھتے ہيں کہ ايران اپنی ايٹمی سرگرميوں کو ايٹم بم بنانے کے ليے استعمال کر رہا ہے جبکہ ايران کا کہنا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے ليے ہے۔
مغربی مالک ايرانی تيل کے ايک بڑے حصے کی برآمد روکنے اور دوسرے ممالک کو ايران کے مرکزی بينک سے لين دين سے روکنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ وہ خاص طور پر چين، بھارت اور دوسرے ايشيائی ممالک کو ايرانی تيل کی برآمد زيادہ پُرخطر بنانے اور اُس کی قيمت کو کم سے کم کر دينے کی کوشش کر رہے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی