بیجنگ میں اولمپک کی افتتاحی تقریب
9 اگست 2008آٹھ کا ہندسہ چینی معاشرے میں پراسراراورخوش بختی کی علامت مانا جاتا ہے۔ اس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اٹھویں ماہ کی آٹھویں تاریخ کو مقامی وقت کے مطابق دو بجکر آٹھ منٹ پراولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر چینی صدر ہو جن تاؤ نے فاخرانہ انداز میں کہا کہ بیجنگ اولمپکس منفرد اوریادگار ہوں گے۔ دنیا بھر سے اسی سے زائد ریاستی اورحکومتی سربراہان اولمپک افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور روسی وزیرِ اعظم ولادی میرپوٹن بھی اس شاندار تقریب میں شریک تھے۔ پاکستان کی نمائندگی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی ۔
جرمنی برطانیہ اور کینیڈا کے سربراہان نے بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے گریز کیا ہے۔ تاہم جرمنی کے سابق چانسلر اور چین میں بہت زیادہ پسند کیے جانے والے Gerhard Schröder نے اس تقریب میں حصہ لیا۔ انھوں نے چانسلرمیرکل کی چین پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وفاقی جرمن وزیرِ داخلہ Wolfgang Schaüble وفاقی سطح پر جرمنی کے کھیلوں کے امور کے نگراں ہیں اس لئے وہ بیجنگ اولمپکس کے اختتامی تقریب میں حصہ لیں گے۔
افتتاحی تقریب میں پندرہ ہزار سے زائد چینی فنکارچین کی رنگ برنگی ثقافت پیش کی ۔ اس تقریب کو چار چاند لگانے کے لئے انتیس ہزار آتش بازی کے راکٹوں کو فضاء میں چھوڑا گیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے اس ملک میں اولمپک کھیلوں کے انعقاد پر تینتالیس بلین ڈالر صرف کیے گئے ہیں جبکہ محض بیجنگ کے اولمپیا اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب پر ایک سوملین ڈالر کے اخراجات آئے ہیں۔ اس اسٹیڈیم کو چینی زبان میں پرندوں کے گھونسلے کا نام دیا گیا ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پراور کثیرالنوع ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ چین نے سب سے زیادہ توجہ سلامتی کی صورتحال پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ جس کے لئے ایک لاکھ سے زائد اہلکاروں پر مُشتمل سلامتی کا عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ کے اولمپک مقابلوں میں دنیا بھر سے آئے ہوئے کوئی11 ہزار ایک سو ایتھلیٹ شریک ہیں۔ 28 مختلف طرح کے کھیلوں کے مقابلے کے لئے کوئی 1000 میڈلزہیں جن میں 302 گولڈ میڈلزشامل ہیں اور ان کے حصول کے لئے ایتھلیٹ کھلاڑی دو ہفتوں تک جان کی بازی لگائے رکھیں گے۔
اس بار کے اولمپکس میں مختتلف ممالک نے اپنے ایتھلیٹس کو میڈل حاصل کرنے کی صورت میں اضافی انعامی رقوم دینے کا اعلان کیا ہے۔ چین اولمپک مقابلوں کے دوران پہلا سونے کا تمغہ حاصل کرنے والے اپنے ایتھلیٹ کو ایک لاکھ چالیس ہزاریورو انعام کے طور پر دے گا۔ جبکہ روس کی اولمپک کمیٹی نے اعلان کیا کہ سونے کا تمغہ جیتنے والے ہر روسی کھلاڑی کو ایک لاکھ یوروسے نوازا جائے گا اور جرمن حکومت گولڈ میڈل جیتنے والے ہر جرمن ایتھلیٹ کو 15 ہزار یورو دے گی۔ جبکہ چاندی اور کانسی کے تمغے جیتنے والے ہر کھلاڑی کے حصے میں 10 ہزار یورو کی انعامی رقم آئے گی۔ گزشتہ کئی اولمپک مقابلوں میں امریکہ تمغوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہا ہے۔ 2004 کے ایتھنزاولمپک میں چین نے 32 سونے کے تمغے حاصل کرتے ہوئے روس پرسبقت لی اور دوسرے نمبر پرآیا۔ اس مرتبہ امریکہ سے زیادہ تمغے جیتنے کے لئے چین نے اپنی ٹیم میں 639 ایتھلیٹ شامل کئے ہیں۔ اولمپک کی تاریخ میں یہ چین کا سب سے بڑا دستہ ہے۔