1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کے دورہ افغانستان کے بعد کابل میں حملے

2 مئی 2012

افغانستان میں بدھ دو مئی کو امریکی صدر باراک اوباما کے غیر اعلانیہ دورے کے چند ہی گھنٹوں بعد طالبان نے دارالحکومت کابل میں غیر ملکی اہداف پر حملے کیے جن میں کم از کم سات افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

https://p.dw.com/p/14nqa
تصویر: Reuters

کابل کا ایک انتہائی محفوظ علاقہ ’گرین ایریا‘ ایک خود کش کار بم دھماکے سے گونج اٹھا اور وہاں سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اس علاقے میں بہت سے غیر ملکی گیسٹ ہاؤسز قائم ہیں جن میں بین الاقوامی تنظیموں کے اہلکار مقیم ہیں۔

طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اوباما کی تقریر کا جواب ہے۔

اوباما نے اپنے مختصر دورہ افغانستان کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان شراکت کے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت 2014 ء کے اختتام پر بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد امریکا افغانستان کو دس سال کے عرصے تک امداد فراہم کرے گا۔

Obama Bagram Air Field Afghanistan
اوباما نے بگرام کے فوجی اڈے پر امریکی فوجیوں سے بھی خطاب کیاتصویر: AP

اوباما نے صدر کرزئی کے صدارتی محل میں معاہدے پر دستخط کے بعد کہا: ’افغانستان میں صبح کے اس دھندلکے میں ہم افق پر ایک نئے دن کی روشنی نمودار ہوتی دیکھ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم امن کے مستقبل کی جانب بے چینی سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم طویل المیعاد شراکت دار بننے پر اتفاق کر رہے ہیں۔‘

صدر کرزئی نے اس موقع پر کہا کہ یہ معاہدہ ’ہمسایہ ملکوں سمیت کسی بھی تیسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سے خطے میں استحکام، خوشحالی اور ترقی آئے گی۔‘

افغان پولیس کے مطابق اوباما کی روانگی کے قریب دو گھنٹوں بعد کابل کے ایئر پورٹ کے نزدیک ایک خود کش کار بم دھماکہ ہوا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا: ’یہ اوباما کو پیغام ہے کہ ان کی فورسز کا افغانستان میں کبھی خیر مقدم نہیں کیا جائے گا اور ہم قابض فوجیوں کی ہلاکت یا ان کے ملک چھوڑ جانے تک اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔‘

Obama beim Überraschungsbesuch in Afghanistan Mai 2012
امریکی صدر باراک اوباما اور ان کے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے درمیان شراکت کے نئے معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت امریکا دس سال تک افغانستان کو امداد فراہم کرتا رہے گاتصویر: Reuters

اس معاہدے میں واشنگٹن کی جانب سے افغانستان کے لیے مالی امداد یا فوجیوں کی مخصوص تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے مگر امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان القاعدہ جیسے گروپوں کا دوبارہ گڑھ نہ بنے۔

منگل کو پینٹاگون کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے مگر پاکستان میں شورش پسندوں کی پناہ گاہیں اور بدعنوانی کے باعث ’طویل المیعاد اور انتہائی شدید چیلنجز‘ موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت 87,000 امریکی فوجی اور 44,000 بین الاقوامی فوجی موجود ہیں جبکہ اف‍غان فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی تعداد 344,000 ہے۔

(hk/km (AFP