1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کا کرزئی کو فون، اہم معاملات پر گفتگو

21 فروری 2012

امریکی صدر باراک اوباما نے پیر کو اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مصالحتی عمل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/146Hf
تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کو ایسے وقت میں ٹیلی فون کیا ہے، جب حامد کرزئی نے ابھی حال ہی میں اپنے دورہ ء پاکستان کے دوران صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ ملاقات کی۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے، ’’دونوں صدور نے افغان مصالحتی عمل کے لیے علاقائی تعاون، گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہوئی پاکستان، ایران اور افغانستان سہ فریقی ملاقات اور باہمی تعاون کے دیگر اسٹریٹیجک معاملات پر گفتگو کی۔‘‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا اور افغانستان کے حکام مستقبل میں بھی رابطے میں رہیں گے تاکہ مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے قریبی مشاورت جاری رکھی جا سکے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ کابل حکومت ملک میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات جاری رکھے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مذاکرات کے اس عمل میں کچھ جگہوں پر امریکا شامل ہے اور کچھ پر نہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حامد کرزئی نے جمعہ کے دن اسلام آباد میں ایرانی اور پاکستانی صدور سے مشترکہ ملاقات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے علاقائی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

Gipfel im Iran Treffen Afghanistan Iran Pakistan
زرداری، احمدی نژاد اور کرزئیتصویر: AP

اس ملاقات میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے الزام عائد کیا کہ افغانستان میں شورش کی وجہ وہاں غیر ملکی افواج کی تعیناتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تہران حکومت علاقائی سطح پر پائیدار امن کے لیے اسلام آباد اور کابل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔

حامد کرزئی نے وال اسٹریٹ جرنل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کابل حکومت علاقائی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے علاوہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں مصروف ہے۔ اگرچہ طالبان نے صدر کرزئی کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے تاہم واشنگٹن حکومت نے اس کی تصدیق کی ہے۔

چونکہ  شیڈول کے مطابق 2014ء میں افغانستان میں تعینات امریکی جنگی فوجی واپس بلوا لیے جائیں گے، اس لیے واشنگٹن کی بھرپور کوشش ہے کہ اس سے قبل ہی افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کر لی جائے۔ امریکا نے طالبان کے ساتھ مشروط مذاکرات کی حامی بھر رکھی ہے۔

امریکا کا مطالبہ ہے کہ افغان طالبان ہتھیار پھینک دیں، دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی مذمت کریں اور افغان آئین کو تسلیم کر لیں تو ان سے مذاکرات ممکن ہیں۔ اسی دوران طالبان نے بھی کہا ہے کہ وہ قطر میں اپنا ایک دفتر کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مصالحتی عمل جاری رکھا جا سکے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: افسر اعوان