1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

او آئی سی کانفرنس کی کامیابی کئی حلقوں میں زیر بحث

22 مارچ 2022

سیاسی مبصرین اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے اسلامی ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس کو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ ناقدین کا دعوی ہے کہ او آئی سی ایک کمزور تنظیم ہے، جس کی عالمی سطح پر کوئی خاص حیثیت نہیں۔

https://p.dw.com/p/48r0k
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

ابھی کچھ ہی دن پہلے ملک میں احتجاج کے بادل منڈلارہے تھے لیکن اڑتالیسویں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے قریب آتے ہی تمام اسٹیک ہولڈرز نے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا۔

کانفرنس کا انعقاد کامیابی ہے

پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی بہت متاثر کن رہی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل تمام نکات پر بیس منٹ کے مختصر وقت میں مدلل گفتگو کی، جس کا مسلم دنیا کی عوام پر بہت اثر ہو گا۔ انہوں نے جس انداز میں مسلم دنیا کے مسائل کو اجاگر کیا، شاید ہی کوئی مسلم رہنما ایسے کر سکے۔‘‘

Pakistan | Premierminister | Imran Khan
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

عمران خان کا خطاب

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ مسلم دنیا کو مبارکباد دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے پندرہ مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم دنیا نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔

وزیر اعظم نے ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو اپنے آپ کو معتدل مسلم کہتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ متعدل مسلم ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی انتہا پسندانہ اسلام بھی ہے یا اسلام کا کوئی اور رنگ بھی ہے۔

فلسطین اور کشمیر پر مایوس

عمران خان نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر مسلم  دینا کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''ہم نے فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی والی مسلم دنیا نے کشمیر پر یو این کی قرارداد کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا اور بھارت نے کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کو بھی کشمیریوں سے چھین لیا۔‘‘ عمران خان نے جنگی جرائم کے حوالے سے جینیوا کنونشن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ایک جنگی جرم ہے لیکن بھارت یہ کر رہا ہے۔

افغانستان اور یوکرین

عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ افغانوں نے چالیس برس جنگ دیکھی ہے اور جتنا افغان متاثر ہوئے ہیں کوئی قوم متاثر نہیں ہوئی۔پاکستانی وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ افغانستان کا استحکام ہی دہشت گردی کو روک سکتا ہے۔یوکرین کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا،''ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم ایک ارب سے زیادہ مسلمان کس طرح اس مسئلے پر ثالثی کرا سکتے ہیں۔ تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ چین اور مسلم دنیا کس طرح اس یوکرائن کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اثر ورسوخ استعمال کر سکتے ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے۔‘‘ وزیر اعظم نے جنگ کے اثرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔

Pakistan OIC Konferenz Außenminister Islamabad
تصویر: Cem Ozdel/AA/picture alliance

'کانفرنس حکومت کی کامیابی ہے‘

اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس حد تک کامیاب ہوئی ہے کہ اس نے کانفرنس کا انعقاد پر امن طریقے سے کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ملکی اور خارجی سطح پر حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا تو اس صورتحال میں اس کانفرنس کا انعقاد یقینا حکومت کی کامیابی ہے اور وہ بھی اس طرح منعقد ہوئی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک بڑی تعداد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ تو یقینا گورنمنٹ اس بات کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔‘‘

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس ایند ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس سے پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک مضبوط مقام حاصل ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مسلم دنیا کی عوام مذہبی جذبات رکھتی ہے اور عمران خان نے ان جذبات کی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان ایک بڑی بات ہے اور عمران خان اس کا بجا طور پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا یوکرائن کے مسئلے میں گھری ہوئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں وزرائے خارجہ کی آمد پاکستان کے لیے بڑی بات ہے۔ ''میرے خیال میں حکومت اس کامیابی کو آنے والے وقتوں میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گی کیونکہ ملک کی سیاسی کشیدگی کے باعث ایسالگ رہا تھا کہ شائد یہ کانفرنس نہ منعقد ہو سکے۔‘‘

کون سی کامیابی، کیسی کامیابی

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ او آئی سی کے کمزور تنظیم ہے، جس کی عالمی سطح پر کوئی وقعت نہیں۔ سابق سیکرٹری پلاننگ فضل اللہ قریشی، جنہوں نے ماضی میں او آئی سی کے ساتھ کام بھی کیا، کا کہنا ہے کہ اس تنظیم سے کوئی زیادہ امیدیں باندھنا خوش فہمی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کامیابی کا کیا معیار ہے؟۔ کیا اس اجلاس نے کشمیر کے حوالے سے کوئی کامیابی حاصل کی؟۔ کیا افغانستان کے حوالے سے کامیابی ہوئی؟ مسلم امہ کے حوالے سے کوئی بڑا کام ہوا۔؟‘‘

OIC Konferenz islamischer Staaten in Malaysia Flaggen
تصویر: AP

فضل اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم خود یمن میں جنگ روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو مزید یہ کیا کر سکتی ہے، ''جب تک ایران اور سعودی عرب کی چپقلش ہے، اس وقت تک او آئی سی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ مسلم ممالک کو اپنے آپس کے مسائل پہلے حل کرنے ہوں گے۔‘‘

تاہم ڈاکٹر نور فاطمہ بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ تنظیم طاقت ور نہیں،''اسلامی ممالک کی یہ تنظیم یورپی یونین کی طرح طاقتور نہیں ہے۔ اس کانفرنس کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے اختتام پر کوئی ٹھوس اقدامات کا اعلان بھی کیا جائے اور نہ صرف اعلان کیا جائے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔‘‘

تاہم ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ او آئی سی کا یورپی یونین سے موازنہ کرنا مناسب نہیں، ''ای یو ایسے ممالک کی تنظیم ہے، جس نے مسلم ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک کو غلام بنایا، جب کہ او آئی سی ایسے ممالک پر مشتمل ہے، جو نو آبادیات کا شکار رہے ہیں۔ تو دونوں تنظیموں میں کوئی موازنہ نہیں ہے۔‘‘