1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا، کوڑے مارنے والی خواتین کا دستہ تیار

31 جنوری 2020

انڈونیشی صوبے آچے میں سخت شرعی قوانین کا نفاذ ہے، جہاں متعدد جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت شرعی سزائیں سنائی جاتی ہیں اور ان سزاؤں پر عملدرآمد لوگوں کے سامنے کھلے عام کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3X54U
Indonesien Aceh Timur  | Frau wird wegen vorehelichen Sex ausgepeitscht
تصویر: Getty Images/AFP/C. Mad

 

انڈونیشی صوبے آچے میں حکام نے مجرم خواتین کو کوڑے یا درے مارنے کے متنازعہ عمل کے لیے اب خواتین ہی بھرتی کر لی ہیں۔ یہ خواتین نقاب پہن کر اپنے ہدف یعنی کسی 'مجرم‘  خاتون کو سنائی جانے والی شرعی سزا پرعملدرآمد کرتی ہیں۔

پانچ ملین نفوس پر مبنی آچے میں شرعی سزاؤں پر عمل کرنے کے لیے یہ ایک نئی پیش رفت ہے، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

کوڑے مارنے والے خاتون دستے کی پہلی ذمہ داری ایک غیر شادی شدہ خاتون کو کوڑے مارنا تھا، جو ایک ہوٹل کے کمرے سے ایک غیر مرد کے ساتھ گرفتار کی گئی تھی۔

آچے کے دارالحکومت بندے آچے کی شریعہ پولیس کے تفتیش کار اعلیٰ ذاکاوان نے کوڑے مارنے والی ایک خاتون کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ حکومتی تفتیش کار نے کوڑے مارنے والی خاتون کی تکنیک کو سراہتے ہوئے کہا کہ اُس نے انتہائی مہارت کے ساتھ یہ عمل سر انجام دیا۔

Indonesien Banda Aceh Baiturrahman Grand Mosque
آچے میں شرعی قوانین کا نفاذ سن 2005 میں کیا گیاتصویر: DW/J. Küng

بندے آچے میں شریعہ پولیس چیف سافریادہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''آچے میں کوڑوں کی سزا درحقیقت دیگر ممالک مثال کے طور پر سنگاپور یا سعودی عرب کے مقابلے میں بہتر طریقے سے دی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم چوٹ لگانا نہیں چاہتے بلکہ مقصد شرم دلانا ہے۔ تاکہ نہ صرف مجرم بلکہ سزا کو دیکھنے والے بھی دوبارہ ایسا نہ کریں۔‘‘

آچے میں دی جانے والی شرعی سزاؤں کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے کارکن آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو 'غیر انسانی اور بربریت‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔

انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو نے کھلے عام کوڑے مارنے کے خلاف بیان ضرور دیا ہے لیکن اس کا اثر آچے کی صوبائی انتظامیہ یا حکومت پر نہیں ہوا ہے۔ 

Indonesien 2017 Anti-LGBT-Proteste in Banda Aceh
آچے میں ہم جنس پرستی کے خلاف حکومتی اور عوامی سطح پر جذبات پائے جاتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin

یہ معاملہ نہ صرف سماجی حلقوں میں بلکہ سیاسی سطح پر بھی  ایک گرما گرم بحث کا باعث ہے۔ انڈونیشیا کی معروف فیمنیسٹ ایٹنیکے سیگورو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ کسی خاتون کو کوڑے مارنے کے لیے ایک خاتون کا منتخب کرنا اس عمل کو ’زیادہ اخلاقی‘ نہیں بناتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عمل اینٹی ٹارچر کوینشن کے بھی خلاف ہے اور اس سے انسانی عظمت بھی متاثر ہوتی ہے۔

 ناقدین کے مطابق اکثر کیسوں میں جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور بے قصور لوگ بھی اس سزا کی زد میں آ جاتے ہیں۔

آچے میں سن 2005 میں شرعی سزاؤں کا نفاذ کیا گیا تھا۔ اس صوبے میں جوا، زناکاری، شراب نوشی اور ہم جنس پرستی یا شادی سے قبل سیکس جیسے مروجہ جرائم پر کارروائی شرعی قوانین کے تحت کی جاتی ہے۔ آچے میں ایک سپیشل فورس بھی تشکیل دی گئی ہے، جو مخبری پر چھاپے مارتی ہے اور ان جرائم میں ملوث لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے۔ اس فورس کا مقصد لوگوں کے 'رویوں‘  کو درست کرنا ہے۔

ع ح ⁄  ع ب (اے ایف پی)

’ڈیٹ‘ پر جانے کی سزا کوڑے