1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹرنیٹ پر آپ کے بچوں کے ساتھ یہ کچھ ہو سکتا ہے!

23 جنوری 2021

چند دن پہلے لاہور کے ایک پوش علاقے میں ایک ڈکیتی کی خبر آئی، تفتیش کے نتیجے میں یہ پتا چلا کہ اس گھر میں موجود بچہ کافی عرصے سے ایک آن لائن گیم کھیل رہا تھا اور دوران گفتگو گھر کی ساری معلومات بھی فراہم کر رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/3oK0y
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

دوسری طرف بات کرنے والا اتنے دن سے بچے کے مالی حالات اور سٹیٹس سے آگاہ ہو چکا تھا۔ ان تمام معلومات کے ذریعے ان کے لیے ڈکیتی کی واردات بہت آسان ہو چکی تھی۔ ملزمان گرفتار ہوئے اور یہ اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے ایسا پہلی بار نہیں کیا۔

 یہ واقعہ کافی پریشان کن تھا، اب جب پاکستان کی سائبر کرائم کی ویب سائٹ پر جا کر گزشتہ سال ہونے والے اس قسم کے واقعات کے اعداد وشمار دیکھے تو وہ مزید  پریشان کن تھے۔ گزشتہ برس سائبر کرائم ونگ کو بائیس ہزار سے زاید ایسی درخواستیں ملیں، جن میں مالی دھوکا دہی، جنسی ہراسانی، سائبر سٹاکنگ اور چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق شکایات موجود تھیں۔ بچوں کے جنسی استحصال اور چائلڈ پورنوگرافی کی بنیاد پر نو ہزار سے زائد انکوائریز کی گئیں، چوبیس ایف آئی آر  درج ہوئیں، چھبیس ملزم اور تین بڑے گروہ گرفتار کیے گئے۔ بچوں سے متعلق سائبر کرائمز کی ایک بڑی وجہ لاک ڈاؤن میں آن لائن کلاسسز کی وجہ سے بڑھ جانے والا سکرین ٹائم ہے۔ ہمیں پہلے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور رکھنا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ کوئی دانش مندی ہے لیکن اس قسم کے واقعات سے دل بھی پریشان ہو جاتا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اپنے گھروں میں خود بچوں کو انٹرنیٹ اور گیجٹس کے استعمال سے متعلق آگاہی دی جائے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے نصاب میں 'ڈیجیٹل شہریت‘ یا انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق بنیادی کورسز کو شامل کیا گیا ہے، جن میں ٹیکنالوجی یا انٹرنیٹ کے ذریعے قائم ہونے والے روابط، آن لائن خریداری، معلومات کا تبادلہ، آن لائن تعلیم، ڈیجیٹل دنیا کے آداب و ضوابط، سائبر کرائمز سے متعلقہ قوانین، آزادی اظہار رائے  کا مثبت اور منفی استعمال، انٹرنیٹ کے جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرات اور ڈیجیٹل سکیورٹی  کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔

اپنے بچوں کو آن لائن پلیٹ فارمز پر محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کو سمجھتے ہوئے ان پر بات کرنے کو تیار ہوں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر سائبر بُلنگ ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس سے انسان کا نہ صرف اعتماد متاثر ہوتا ہے بلکہ وہ مختلف نفسیاتی الجھنوں کا شکار بھی ہوتا ہے۔

 اسی طرح  سرچ انجن کی مدد سے ہر قسم کا مواد آپ کی دسترس میں ہے، اب وہ کچے ذہنوں کے لئے کتنا نقصان دہ ہے اس کے لیے والدین کا ان تمام  حقائق سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ جیسا اوپر بیان کئے گئے واقعے میں بچے کو اعتماد میں لے کر گھر میں ڈکیتی کی گئی، اسی طرح کی کم علمی اور لاپروائی کی وجہ سے اغوا برائے تاوان اور جنسی ہراسانی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنے کے لئے صارف کی کم ازکم عمر تیرہ سال جبکہ یوٹیوب چینل کے لئے اٹھارہ سال ہے لیکن اس معاملے میں ہم ایک مجموعی غفلت کا شکار ہیں اور بچوں کی ان سرگرمیوں پر نہ احتیاط برتتے ہیں نہ ان کو اس کے مثبت یا منفی پہلو بتاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

نوجوانوں کا تحفظ: سوشل میڈیا اداروں سے تصادم ممکن، جرمن وزیر

پاکستانی بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف ایپ: ’میرا بچہ الرٹ‘

آن لائن کلاس ہو یا پھر بچوں کا سکرین ٹائم، انہیں اپنے ای میل کے ذریعے ان ایپس پر رسائی دیں۔ کوشش کریں کہ ٹیبلیٹ یا فون آپ کی ای میل سے منسلک ہو تا کہ آپ تمام سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔ گیجٹس، ای میلز اور ایپس والدین کو پیرنٹل کنٹرول کے ذریعے یہ اختیار دیتی ہیں کہ وہ خود نامناسب مواد کو بلاک کر سکیں۔ کمپیوٹر ہمیشہ اس کمرے میں رکھیں، جہاں گھر کا کوئی نہ کوئی فرد غیر محسوس طریقے سے نگرانی کر سکے۔ اس کے علاوہ بچوں کو ڈیجیٹل فٹ پرنٹ کے بارے میں بتائیےکہ انٹرنیٹ پر لکھا جانے والا کوئی پیغام، اپلوڈ کی جانے والی تصویر، لنک یا کومنٹس ڈیلیٹ کئے جانے کے باوجود وہیں رہتے ہیں، اس لیے سوچ سمجھ کر شئیرکریں، ایک پاکستانی بلاگر نے دوستوں کے ساتھ شغل مستی میں کلاشنکوف کیساتھ ایک تصویر اپنے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی اور بیرون ملک سفر کرنے پر ان کو ایئرپورٹ پر اس اسلحے کیساتھ تصویر کی وجہ سے روکا گیا اور اسی طرح واپس پاکستان بھی بھیج دیا گیا۔

آپ کی کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ پوسٹ یا تصویر آپ کے خلاف استعمال  کی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پروفائلز اب آپ کی پہچان ہیں، نوکری اور انٹرویوز سے پہلے آپ کی پروفائلز کی جانچ کی جاتی ہے اور آپ کی شخصیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے انسان کی سائبر بلنگ یا ایسی کسی بھی مجرمانہ سرگرمی کے نتائج بھی بتائیں۔

 آن لائن کلاسسز کی وجہ سے ایک اور بڑا مسلہ یہ پیدا ہوا کہ طلبا اپنی اسائنمیٹ مکمل کرنے کی غرض سے انٹرنیٹ سے دستیاب مواد اٹھا کر اپنے کام کے طور پر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی بھی جرم ہے۔ جس سے نہ صرف اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے بلکہ انسان رفتہ رفتہ اس احساس ذمہ داری سے بھی عاری ہو جاتا ہے کہ کسی اور کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ نہیں لگایا جا سکتا۔ خود احتسابی کا بیج صرف تربیت کے ذریعے بویا جا سکتا ہے اور ان اصولوں کی وجہ سے آپ کی ، آپ کی اولاد اور ارد گرد کے انسانوں کی زندگیاں آسان ہو جاتی ہیں۔کسی کی تصویر، دستاویز، تحریر بلا اجازت اپنے نام سے پبلش کرنا، کسی کو دھمکانا یا ہراساں کرنا قابل گرفت جرم ہیں۔

انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال بچوں کی نفسیات پہ بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس کی لت بھی کسی نشے سے کم نہیں اور جب انسان کو مخصوص قسم کی توجہ ملنے کی عادت ہو جائے تو ناموافق یا دوسری صورت میں وہ تنہائی، ڈپریشن یا دوسرے منفی جذبات  کا شکار ہو سکتا ہے۔

 سارا دن کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنے اور موبائلز یا ٹیبلیٹس پر انڈور سرگرمیوں میں گم رہنے کی وجہ سے جسمانی کسرت کا رجحان بھی قدرے کم ہو گیا ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان چند عناصر کی نشاندہی ہے، جو بچوں کی ذہنی، جانی اور نفسیاتی بہتری کے لئے ضروری ہیں۔

انٹرنیٹ اب زندگی کی ضرورت ہے اس کے بغیر کاروبار زندگی ممکن نہیں اور جب دنیا گلوبل ویلیج کا روپ دھار چکی ہے اور ہمارے بچوں نے اسی ڈیجیٹل دنیا کا شہری بننا ہے تو بہتر یہی ہے کہ موبائلز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کے استعمال پر روک ٹوک کی بجائے بچوں کی تربیت ایسے کریں کہ وہ ان سہولتوں کو اپنی سماجی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کر سکیں۔