’انٹر جنریشنل ٹراما‘ کیا ہے، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
15 دسمبر 2024پاکستان سمیت بہت سے مشرقی معاشروں میں مشترکہ خاندانی نظام کو نہ صرف روایات کا حصہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر اس کا ایک نمایاں نفسیاتی پہلو بھی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے صدمے کے اثرات کا اگلی نسلوں کو منتقل ہونا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس طرح کے صدمات پہلی نسل سے دوسری، تیسری بلکہ چوتھی نسل تک کو بھی منتقل ہو رہے ہیں، جس کے سبب خاندانوں میں اندرونی تعلقات شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
وفاقی وزارت صحت کی جانب سے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو کیونکہ پاکستانی معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو پا گل پن سمجھ کر چھپایا جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو اپنے مسائل پر بولنے اور ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ذہنی عوارض کی ایک بڑی وجہ ’’انٹر جنریشنل ٹراما‘‘ یا نسلی صدمہ ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے جاننے کے لیے ماہرین نفسیات سے بات کی ہے۔
نسلی صدمہ کیا ہے؟
امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بچپن میں چوٹ، جنسی ہراسانی یا ذاتی حملے، حادثے، غربت اور دیگر بیرونی عوامل کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والے کسی نقصان کے اثرات اگلی نسل میں صدمے کی صورت میں منتقل ہوتے ہیں جسے "انٹر جنریشنل ٹراما" یا نسلی صدمہ کہا جاتا ہے۔ یہ اثرات ایپی جینیٹک (موروثی) ہوتے ہیں یعنی صدمہ اگلی نسل میں جین کے بجائے جین مارکرز کو متاثر کرتا ہے۔
ایک نسل کے افراد اگر کسی صدمے سے گزرے ہوں تو اس کے اثرات جینیاتی موافقت کے ذریعے دوسری نسل کو منتقل ہو سکتے ہیں۔ صدمے کا رد عمل حالات کے مطابق مختلف ہوتا ہے مگر زیادہ تر افراد میں شرم، جھجک، ڈپریشن، انگزائٹی، خود اعتمادی کی کمی، بے بسی، خودکشی کا رجحان، منشیات کا استعمال اور قریبی رشتوں کو نبھانے میں مسائل کی علامات نوٹ کی گئی ہیں۔
نسلی صدمے کا خاندانی تعلقات سے کیا رشتہ ہے؟
ڈاکٹر عائشہ عمران ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں اور زیادہ تر فیملی تھراپی کے کیسز لیتی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ نسلی صدمہ کسی بڑے مسئلے کا باعث اس وقت بنتا ہے، جب بچپن یا عمر کے کسی حصےمیں پیش آنے والے تکلیف دہ تجربات کو حل کرنے کے بجائے چھپانے اور دبانے کے نا مناسب طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، '' نسلی صدمہ دماغ کو پہنچنے والے ایک زخم کی طرح ہے۔ اگر آپ کا پاؤں زخمی ہوا ہے تو لازمی آپ کو اس کی مرہم پٹی اور مناسب علاج کرانا ہے۔ لیکن اگر آپ زخم کو چھپائیں گے تو وہ بگڑ کر خطر ناک ہو جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر عائشہ بتاتی ہیں کہ بچہ جب گھر میں ماں باپ کے جھگڑے، مار پیٹ وغیرہ دیکھتا ہے تو یہ تکلیف دہ واقعات اس کے دماغ میں نقش ہو جاتے ہیں، ''چونکہ بچے عموما والدین سے سیکھتے ہیں لہذا ایسے بچے بڑے ہو کر شادی کے بعد بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات میں مسائل کا شکار رہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام والے گھروں میں روایات و آدرش کئی نسلوں سے چل رہے ہیں۔ ایسے گھروں میں نسلی صدمے کا ایک اور تصور بھی عام ہے۔ یعنی اگر ساس اپنی جوانی میں مشکل اور تکلیف دہ حالات سے گزری ہو تو وہ اپنی بہو کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آتی ہے۔
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے، '' مسئلے کو جڑ سے سمجھے بغیر کئی نسلوں سے خاندانی تعلقات اسی طرز پر چل رہے ہیں، جس کے باعث خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سسرال میں پر تشدد رویوں کے باعث طلاق اور زہرہ قدیر(سیالکوٹ قتل کیس) جیسے ہولناک واقعات کی شرح بڑھ رہی ہے۔‘‘
نسلی صدمہ باہمی تعلقات کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
پلوشہ خان ملتان (تبدیل شدہ نام اور شہر) میں میڈیکل فائنل ایئر کی طالبہ ہیں اور 20 افراد کے مشترکہ خاندان میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ گھر کے مسائل کے باعث وہ گذشتہ دو سال سے شدید ڈپریشن اور انگزائٹی کا شکار ہیں اور گھر والوں کو بتائے بغیر ماہر نفسیات سے کنسلٹ کر رہی ہیں۔ پلوشہ کے مطابق ان کے گھر کا ماحول قدامت پسندانہ ہے اگر وہ اپنی والدہ یا بڑی بہن کو اپنے مسائل کے متعلق بتا نا چاہیں تو انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے، '' تم انوکھی نہیں ہو سب کو سہنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا۔ ''یعنی اگر میری والدہ یا بڑی بہن تکلیف دہ حالات سے گزری تھیں، کسی قسم کا جبر یا ہراسانی کا سامنا کیاتھا تو مجھے بھی خاموشی کے ساتھ سب برداشت کرنا ہوگا۔‘‘
پلوشہ بتاتی ہیں کہ وہ خود میڈیکل کی طالبہ ہیں اور نسلی صدمے کی ایک سے دوسرے نسل میں منتقلی کی باریکیوں سے واقف ہیں مگر اپنی والدہ، بہن یا گھر کی دوسری خواتین کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ وہ اس نسلی بوجھ کو اپنا مقدر سمجھ کر سمجھو تہ کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ عمران کہتی ہیں کہ جس گھر کے بڑوں میں نسلی صدمے کے اثرات ہوں وہاں گھر کے تمام افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ گھر کے ماحول میں تناؤ کی بڑی وجہ والدین کا الجھا ہوا رویہ ہوتا ہے۔ ان کی بچوں سے جذباتی وابستگی محدود ہوتی ہے، یوں باہمی فاصلے گھر کے افراد کو گھلنے ملنے نہیں دیتے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''کچھ والدین بچوں کے معاملے میں حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، جو بچپن میں ان کے اپنے تکلیف دہ تجربات کا عکس ہوتا ہے۔ لیکن بلا وجہ کی روک ٹوک سے بچوں کی نفسیات پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ بڑے ہو کر نشے کی لت اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے نوجوان شادی اور گھر بار کی طرف رغبت نہیں رکھتے جس سے معاشرتی بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔‘‘
لوگ علاج سے کیوں بھاگتے ہیں؟
ڈاکٹر عائشہ بتاتی ہیں کہ ہمارے ہاں فیملی ڈائنامکس اس طرح کے ہیں کہ اگر آپ کسی وجہ سے جذباتی تناؤ، ڈپریشن یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں تو اس کو چھپا نا ہے۔ جبکہ نارسسزم یا نرگسیت یا نرگسیت کا شکار افراد سرے سے یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق، ''نسلی صدمے سے خاندانی تعلقات میں بگاڑ کا بہترین علاج فیملی تھراپی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں سائیکا ٹرسٹ دونوں اطراف کو سن کر ان کے باہمی فاصلے یا بد گمانی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے افراد سائیکاٹرسٹ پر بھی بھروسہ نہیں کرتے یا شاید ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ سالوں سے اپنے اندر پلتے ایک ناسور کو چھیڑیں۔ وہ کہتی ہے اپنے رستے زخموں کو کریدنا یقینا آسان نہیں ہوتا مگر اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہے۔
آگاہی ہی واحد حل
اس حوالے سے معروف نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر علی جاوید کہتے ہیں کہ آج کل نوجوانوں میں منشیات کا استعمال اسی لیے بڑھ گیا ہے کیونکہ فرسودہ گھریلو ماحول میں ذہنی امراض کا علاج کرانے کے بجائے انھیں جرم کی طرح چھپایا جاتا ہےحالانکہ زیادہ تر نفسیاتی مسائل ایپی جینیٹک یا موروثی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر علی کے مطابق، ''عوام خصوصا "جنریشن زی" میں اس حوالے سے شعورو آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے، جس میں میڈیا اور تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، '' ہمارے ہاں کئی نسلوں سے ایک جیسے منفی رویے چل رہے ہیں، جو خاندانوں کو بکھیر رہے ہیں تو لوگوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ان کا سوچنے کا طریقہ غلط ہے۔ انھیں اگر فیملی تھراپی یا ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے پر قائل کر لیا جائے تو نسلی صدمے کے اثرات کو کم کر کے اگلی نسل میں رابطوں اور تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔‘‘