انسانوں کی اسمگلنگ کا شبہ، ترک فوج کا بریگیڈیئر جنرل گرفتار
28 جون 2024ترک وزارت دفاع کے ذرائع نے ملکی میڈیا میں رواں ہفتے شائع ہونے والی ان خبروں کی تصدیق کر دی ہے کہ شام میں ٹرکش آرمی کے علاقائی آپریشنز کے انچارج ایک بریگیڈیئر جنرل نے اپنی سرکاری گاڑی کو چیک پوائنٹس کے ذریعے لوگوں کو ترکی میں اسمگل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یوں اس نے ہزارہا ڈالر کمائے۔
یہ واضح نہیں کہ جس سرکاری گاڑی کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو شامی ترک سرحد پار کرائی جاتی تھی، آیا اس میں بریگیڈیئر جنرل خود بھی موجود ہوتے تھے۔
انقرہ میں وزارت دفاع کے ذرائع نے اس بریگیڈیئر جنرل کے گرفتار کر لیے جانے کی تصدیق تو کر دی ہے، تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ گرفتاری کب اور کہاں عمل میں آئی۔
ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس فوجی افسر کی گرفتاری کا حکم شامی سرحد کے قریب واقع ترک صوبے شانلی اورفہ کے ضلع اکاکلے کے پراسیکیوٹر نے جاری کیا جبکہ گرفتاری انقرہ میں عمل میں لائی گئی۔
ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس بریگیڈیئر جنرل سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور انہیں جبری ریٹائر بھی کر دیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فوج کے اندر قانون شکنی کرنے والوں کا تعاقب کیا جائے گا، چاہے کوئی کسی بھی عہدے پر فائز کیوں نہ ہو۔ بتایا گیا ہے کہ انتظامی اور عدالتی کارروائی جاری ہے۔
سن 2016 کے بعد سے ترکی نے کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جی) کے جنگجوؤں کو شمالی شام سے نکالنے کے لیے وہاں یکے بعد دیگرے زمینی فوجی کارروائیاں کی ہیں اور اب وہاں ترک حکومت کے حمایت یافتہ مسلح گروہ دو بڑی سرحدی پٹیوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
انقرہ وائے پی جی کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ایک شاخ کے طور پر دیکھتا ہے، جسے اس نے باقاعدہ طور پر ایک ''دہشت گرد گروپ‘‘ قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد لاکھوں شامی باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے ملک سے فرار ہو کر ترکی میں داخل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سرحدی کنٹرول سخت کر دیا گیا لیکن انسانوں کی اسمگلنگ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ملکی حالات سے تنگ آنے والے زیادہ تر شامی شہری براستہ ترکی یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں ہوا تھا اور دمشق کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد باقاعدہ جنگی کارروائیوں کا آغاز ہوا تھا۔ اس خانہ جنگی میں اب تک نصف ملین سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
ا ا / م م (اے ایف پی)