1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابی قوانین کے لیے تجاویز، عمل درآمد کیسے ہوگا؟

عبدالستار، اسلام آباد
13 جولائی 2023

پاکستان کے کئی حلقوں میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز کی افادیت، انتخابات سے پہلے ان کی ممکنہ طور پر منظوری اور ایوان میں حزب اختلاف کی غیر مؤثر موجودگی میں ان کی منظوری زیر بحث ہے۔

https://p.dw.com/p/4TqzN
Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
تصویر: AP

ان تجاویز کے حوالے سے حکومتی اتحاد کے رہنما اور انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن سینیٹر کامران مرتضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ’’ان تجاویز کو انتخابات بہتر انداز میں منعقد کرانے کے لیے لایا جا رہا ہے لیکن چونکہ یہ تجاویز ان کیمرہ لائی گئی تھیں۔ لہٰذا میں ان کی تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ پیر تک تمام تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔‘‘

تجاویز کیا ہیں؟

حکومتی اراکین ان تجاویز کے مندرجات کو منظر عام پر لانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ تاہم انگریزی روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی نے اپنا کام تیز کر دیا ہے اور کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں انتخابی قوانین میں ترامیم کے حوالے سے 73 تجاویز ان قوانین کی بہتری کے لیے زیر بحث آئیں۔ انہیں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے منظور بھی کرا لیا جائے گا۔

Pakistan Wahlen Wahllokal
احمد بلال محبوب کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں بھی یہ کوشش کی گئی تھی کہ نتائج اسمارٹ فونز سے جلدی بھیج دیے جائیں: ''لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بہت سارا پولنگ کا ایسا سٹاف بھی تھا، جس کو اسمارٹ فونز استعمال ہی کرنا نہیں آتے تھےتصویر: AP

الیکشن میں تاخیر کی بات کرنا غیر آئینی نہیں، اسحاق ڈار

صوبائی الیکشن: قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا

اخبار کا دعوی تھا کہ کمیٹی کو تجویز کیا گیا ہے کہ انتخابات کے نتائج کی تاخیر کی صورت میں پریزائیڈنگ افسر کا احتساب کیا جائے اور اس سے اس تاخیر کی ایک بہت معقول وجہ طلب کی جائے۔ کمیٹی کو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران کو ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز فراہم کیے جائیں اور یہ کہ پریزائیڈنگ افسر دستخط شدہ نتائج کی فوٹو کاپی ریٹرننگ افسر کو بھیجے۔ کمیٹی کو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ تمام پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں، جو گنتی اور نتائج کی ترتیب میں بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں اور کسی تنازعے کی شکل میں کیمرے کی ریکارڈنگ کو ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے۔ کمیٹی کو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ غفلت برتنے پر پریزائیڈنگ افسر یا ریویونگ افسر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹرز کی مکمل لسٹ لگائی جائے اور پولنگ اسٹیشن کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی جائے، جنہیں ضرورت پڑنے پر اندر بھی بلایا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن اخراجات 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک کرنے کی تجاویز دی گئی ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کے اخراجات 20 لاکھ سے 40 لاکھ تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔  یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پولنگ اسٹاف کے ارکان کے نام الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے جائیں تاکہ امیدوار دس دن کے اندر اندر اس تعیناتی کے حوالے سے اعتراض دائر کرا سکی‍ں۔ انتخابی اسٹاف اگر دھاندلی میں ملوث ہو تو اس کے لیے سزا چھ مہینے سے بڑھا کر تین سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

Pakistan Wahlen
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد احمد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے رولز میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔تصویر: AP Photo/Emilio Morenatti

تجاویز کی آسان منظوری

انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن سینیٹر کامران مرتضی کا خیال ہے کہ ان تجاویز کو آسانی سے منظور کرا لیا جائے گا: ’’بظاہر ان تجاویز پر کوئی بہت زیادہ اعتراضات سامنے نہیں آئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر صاحب اجلاس میں موجود تھے انہوں نے اس پر اپنے کچھ تاثرات لکھے ہیں لیکن کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔‘‘

تاہم پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، ''علی ظفر نے کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا اور یہ تاثر غلط ہے کہ پی ٹی آئی ان تجاویز پر اعتراضات نہیں رکھتی۔‘‘

ناقابل عمل تجاویز

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ان میں سے کئی تجاویز اتنے کم وقت میں قابل عمل نہیں ہیں۔ پاکستان میں انتخابات اور انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پروکیورمنٹ کے قوانین پیچیدہ ہیں اور اتنے کم وقت میں سی سی ٹی وی کیمرے اور اسمارٹ فونز کی درامد کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں پہلے ہی اشیاء کی امپورٹ مشکل بنی ہوئی ہے اور ایسے میں ہزاروں پولنگ اسٹیشنز کے لیے اتنے سارے کیمرے اتنے کم وقت میں کیسے امپورٹ کیے جا سکتے ہیں۔‘‘

احمد بلال محبوب کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں بھی یہ کوشش کی گئی تھی کہ نتائج اسمارٹ فونز سے جلدی بھیج دیے جائیں: ''لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بہت سارا پولنگ کا ایسا سٹاف بھی تھا، جس کو اسمارٹ فونز استعمال ہی کرنا نہیں آتے تھے۔ اب اگر اسمارٹ فون کے استعمال کے لیے الیکشن کمیشن تربیت دے، تو اس میں بھی کافی وقت لگے گا کیونکہ پورے پاکستان میں انتخابی عملے کی تعداد بہت بڑی ہوگی۔‘‘

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ تا سیاسی نااہلی، عمران خان کا سیاسی سفر

احمد بلال محبوب کا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی تجاویزسے اجتناب کرے: ” میرے خیال میں جو بھی موجودہ قوانین ہیں انہی کے تحت انتخابات کرا لیے جائیں ورنہ اتنے کم وقت میں نئی تجاویز لانے سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘

’معاملات حل ہو سکتے ہیں‘

تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت پاکستان مل کر ان ٹیکنیکل معاملات کو حل کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد احمد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے رولز میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات صحیح ہے کہ پاکستان میں پروکیورمنٹ کے رولز سخت ہیں لیکن حکومت ان میں نرمی کر سکتی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے اور اسمارٹ فونز کی امپورٹ اور ٹریننگ کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔‘‘

کنور دلشاد احمد کے مطابق حکومت کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ انتخابات کے وقت لوڈ شیڈنگ نہ ہو: ''بجلی کے بغیر کیمرے کیسے کام کریں گے۔ جس طرح عید پر حکومت لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کرتی ہے، بالکل اسی طرح اسے اعلان کرنا پڑے گا کیونکہ شفاف انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے تاکہ دھاندلی کے الزامات نہ لگائے جائیں۔‘‘