1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن کا پیغام پھیلانے کا انوکھا انداز

Afsar Awan4 مارچ 2013

کراچی میں ’امن سواری‘ کے نام سے موٹر رکشے کو امن و محبت کا پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان یوتھ الائنس کی طرف سے شروع کیے جانے والے اس پراجیکٹ کو بہت پزیرائی مل رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/17pdB
تصویر: Pakistan Youth Alliance

پاکستان میں ٹرکوں کو رنگ برنگے نقش و نگار، تصاویر اور عبارات سے آراستہ کرنے کا فن اب باقاعدہ آرٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اب یہ آرٹ صرف ٹرکوں کی سجاوٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ نقش ونگار آج کل کراچی میں رکشوں پر بھی نظر آ رہے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ نمایاں اور قابل توجہ ان رکشوں پر لکھے گئے امن کے نعرے اور پیغامات ہیں۔

Bildergalerie Autorikschas
تصویر: Pakistan Youth Alliance

کراچی کی سڑکوں پر بکثرت نظر آنے والے رکشوں میں صلاح الدین کا رکشہ سب سے الگ نظر آتا ہے۔ اور اس کو جو چیز دوسرے رکشوں سے ممتاز بنا رہی ہے وہ اس پر دلکش نقش ونگار کے علاوہ اس پر درج وہ نعرہ جو نہ صرف امن کا پیغام دے رہا ہے، بلکہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ یہ نعرہ ہے ’’ ہم کالے ہیں تو کیا ہوا، امن والے ہیں‘‘۔

یوں صلاح الدین ’امن سواری‘ کے نام سے اپنے رکشے کو صرف روزی کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے محبت کا پیغام پھیلانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ صرف صلاح الدین ہی نہیں بلکہ کراچی میں اس وقت پانچ رکشے امن کا پیغام لیے پورے شہر میں سواریاں اٹھاتے اور انہیں منزلوں پر پہنچاتے نظر آرہے ہیں۔ یہ پانچوں رکشے ایک خصوصی مہم کا حصہ ہیں جسے ’امن رکشہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

Bildergalerie Autorikschas
تصویر: Pakistan Youth Alliance

'امن رکشہ‘ کے پیچھے پاکستانی نوجوانوں کی ایک تنظیم پاکستان یوتھ الائنس ہے، جو شہر میں لوگوں کو امن و محبت کے پیغامات پہنچانے کے لیے تخلیقی انداز میں تین پہیوں کی اس سواری کا استعمال کر رہی ہے۔ ان رکشوں پر ٹرکوں کی آرائش کی طرز پر خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں، جو کسی خاص علاقائی رجحان یا ثقافت کی عکاسی تو نہیں کرتے تاہم محبت اور امن کا پیغام پہنچاتے ضرور نظر آتے ہیں۔

امن رکشہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان یوتھ الائنس کے صدر علی عباس زیدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن کا پیغام پھیلانے کے لیے اس رومانوی آرٹ کا سہارا لیا ہے، ’’ہم نے موجودہ دور میں دیکھا کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی تنظیمیں اس آرٹ کا منفی انداز میں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور بہت سے نفرت انگیز کلمات ان پر نظر آتے ہیں۔ ہم نے سوچا جب یہ تنظیمیں اپنی نفرت کا ایجنڈا یا پراپگینڈا پھیلا سکتے ہیں تو ہم امن پسند شہری ہونے کے ناطے کیوں نہیں اس کے ذریعے امن کی بات کر سکتے ہیں۔ پہلے مقامی سطح پر، پھر ملکی اور پھر غیر ملکی سطح پر۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے امن رکشہ مہم کا آغاز کیا۔‘‘

Pakistan - Friedensaufruf auf der Rikscha
تصویر: DW/U. Fatima

'رکشہ چلا رہا ہوں گولی تو نہیں‘، ’اب تو امن پھیلا پیارے‘ اور ’پپو یار جنگ نہ کر‘ جیسے تقریباً تمام دلچسپ سلوگن اور نعروں کے پیچھے دراصل اسکول کے بچوں کا ہاتھ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان یوتھ الائنس نے کراچی کے بعض ایسے علاقوں کے جہاں امن و امان کی صورتحال اکثر ابتر رہتی ہے، 200 کے قریب بچوں کی ایک ورکشاپ منعقد کی۔ ان بچوں نے امن کا پیغام پہنچانے کے لیے انتہائی تخلیقی نعرے اور پیغامات تجویز کیے جو اب ان رکشوں پر لکھے نظر آتے ہیں۔

علی عباس زیدی نے ان پانچ رکشوں کی تیاری کے بعد امن کا پیغام مزید علاقوں میں پھیلانے کاعزم بھی ظاہر کیا، ’’ ہم کراچی میں 50 مزید رکشے بنائیں گے۔ ہم کیونکہ کمیونٹی اینگیجمنٹ پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ہم طالب علموں اور رکشہ ڈرائیوروں اور رکشہ آرٹ کمیونٹی کے لیے ورکشاپس منعقد کرتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نفرت یا تعصب کا پیغام پھیلانے کے لیے آپ کا سہارا لینا چاہے تو اس کے لیے دیوار بن جائیں۔ ہماری خواہش ہے کہ دیگر شہروں میں جیسے، سوات اور لاہور میں بھی اس مہم کا آغاز کریں تاکہ ایک نئے طریقے سے وہاں امن کی بات کی جا سکے۔‘‘

Pakistan - Friedensaufruf auf der Rikscha
تصویر: DW/U. Fatima

علی کے مطابق امن کا پیغام پھیلانے کے اس انوکھے طریقے کو ملنے والی پذیرای کے بعد اب امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر بھی یہ رکشہ رکھا جائے گا۔ ’’مارچ میں امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر اس رکشے کو رکھا جائے گا جس پر امریکی اور پاکستانی پرچم کے رنگوں سے ' With love From Pakistan ‘ لکھا ہو گا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور سویڈن میں موجود پاکستانی سفارتخانوں نے بھی انہیں رکھنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر ہم کام کر رہے ہیں تاکہ ہم انہیں یہ بتا سکیں کہ پاکستان میں صرف بد امنی ہی نہیں ہے جیسا کے عام تاثر ہے بلکہ امن کے لیے کام کرنے والے بھی موجود ہیں۔‘‘

علی عباس زیدی کے مطابق انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان رکشوں کی بدولت کراچی میں امن و امان قائم نہیں ہو جائے گا، تاہم یہ امن کی ’عمارت کی تعمیر‘ میں ایک حصہ ضرور ہیں۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: عدنان اسحاق