1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی پیسے سے بنی مقامی افغان پولیس اُلٹا عذاب بن گئی

امجد علی2 جولائی 2015

افغانستان میں امریکی امداد سے قائم خصوصی مقامی پولیس یونٹ ’افغان لوکل پولیس‘ (ALP) کے ارکان مقامی آبادیوں کو طالبان کے حملوں سے بچاتے بھی ہیں لیکن انہیں خود بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FriK
Afghanistan Lokale Polizei
اٹھارہ دسمبر 2012ء کی اس تصویر میں افغان لوکل پولیس کے ارکان صوبے ننگرہار میں تربیتی مشقوں کے دوران ایک جیپ پر سے چھلانگ لگا رہے ہیںتصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ ایسے سینکڑوں پولیس یونٹ پورے افغانستان میں سرگرم ہیں اور خاص طور پر دور دراز کے دیہی علاقوں میں سکیورٹی کے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔ یہ یونٹ اُن افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت کر رہے ہیں، جو آج کل مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دستوں کی مدد کے بغیر ہی مختلف محاذوں پر الجھی ہوئی ہیں۔

افغانستان بھر میں طالبان نے اپنا موسمِ بہار کا لڑائی کا سیزن شروع کر رکھا ہے اور ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں تیزی سے اپنا دائرہٴ اثر پھیلاتے جا رہے ہیں۔ ان طالبان کے خلاف ’افغان لوکل پولیس‘ ایک طرح سے ابتدائی دفاعی لائن کا فرض انجام دے رہی ہے۔

اگرچہ ان یونٹوں کو ’پولیس‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن اے ایف پی کے جائزے کے مطابق ان کے لیے پولیس کا نام زیادہ موزوں نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کی ملیشیا ہیں، جسے لاقانونیت اور بے رحمانہ کارروائیوں کے لیے بھی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسی منفی ساکھ کے باعث کچھ علاقوں میں لوگ اُلٹا طالبان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

اے ایف پی نے اپنے جائزے میں بحران زدہ شمالی افغان صوبے قندوز میں واقع ایک گاؤں قصاب کی مثال دی ہے، جہاں ’افغان لوکل پولیس‘ کے مقامی یونٹ کی قیادت ایک اُنیس سالہ افغان محمد جواد کے پاس ہے۔ اس یونٹ کے ایک سو دَس ارکان میں زیادہ تر کسان اور دکاندار شامل ہیں۔ جواد نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان اس گاؤں سے محض چند سو میٹر کی دوری پر ہیں اور یہ خصوصی یونٹ نہ ہو تو طالبان عسکریت پسند فوری طور پر اس گاؤں کو اپنے قبضے میں لے لیں اور ’ہمارے سر قلم کر دیں‘۔

قندوز میں اپریل سے لڑائی کا سلسلہ جاری چلا آ رہا ہے اور کبھی طالبان کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیتےہیں، کبھی یہ علاقے اُن کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے، جنہیں وسطی ایشیا کے تجریہ کار جنگجوؤں کی بھی مدد حاصل ہے، قندوز شہر کے قریب ہی واقع چار درہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ 2001ء میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سے طالبان کا کسی پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ ہو جائے گا۔

Afghanistan Kämpfe in Kundus Polizisten in Char Dara
’افغان لوکل پولیس‘ (ALP) کے ارکان میں زیادہ تر کسان اور دکاندار شامل ہیںتصویر: Reuters

اگرچہ افغان حکومتی فورسز نے جلد ہی یہ ضلعی ہیڈکوارٹر پھر سے واپس چھین لیا لیکن طالبان مسلسل بڑے شہروں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملے طالبان کی اُس مخصوص حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کے تحت وہ حکومت کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات سے پہلے پہلے اپنی پوزیشن مستحکم بنا لینا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس ساری کشمکش میں ہزارہا افغان شہریوں کو گھر بار چھوڑ کر فرار ہونا پڑ رہا ہے۔

’افغان لوکل پولیس‘ (ALP) کا قیام 2010ء میں عمل میں آیا تھا۔ دریں اثناء افغانستان کے چونتیس میں سے اُنتیس صوبوں میں یہ یونٹ سرگرمِ عمل ہے، جس میں تقریباً تیس ہزار ’جنگجو‘ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت اس تعداد کو بڑھا کر پنتالیس ہزار تک لے جانا چاہتی ہے۔

دوسری جانب انٹرنیشنل کرائسس گروپ (ICG) کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ یونٹ طالبان کی بغاوت کو کچلنے کی بجائے اُسے اور ہوا دینے کا موجب بن رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تربیت کی کمی، حکومتی نگرانی کے فقدان اور کرپشن کی وجہ سے اے ایل پی کے یونٹ بے رحم مجرمانہ گروہوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق شمالی صوبے فریاب میں یہ خصوصی پولیس یونٹ سانپوں سے بھرے ہوئے ایک خشک کنویں کو جبر و تشدد روا رکھنے کے ایک مرکز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

Afghanistan Kämpfe in Kundus Polizisten in Char Dara
یہ تصویر 23 جون 2015ء کی ہے، جس میں افغان لوکل پولیس کے ارکان چار درہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر کے ایک چیک پوائنٹ پر پہرہ دے رہے ہیںتصویر: Reuters

ایک یرغمالی کو کھلے آسمان کے نیچے نشانے کی پریکٹس کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک بوڑھے دیہاتی نے اس یونٹ کے ارکان کے غلط رویے کی شکایت کی تو اُسے ایک پِک اَپ ٹرک کے پیچھے باندھ کر اُس وقت تک گھسیٹا گیا، جب تک کہ وہ جان سے نہیں چلا گیا۔ اس یونٹ کے ارکان کی طرف سے چوری، ریپ اور ڈرگ اسمگلنگ بھی عام ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید