امریکی پابندیوں کے باعث ایران میں کرپشن میں اضافہ، مگر کیسے؟
31 اکتوبر 2019آج کل ایرانی ذرائع ابلاغ میں ایک ایسے حیران کن مقدمے سے متعلق تفصیلی رپورٹنگ کی جا رہی ہے، جس میں اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے والی شخصیت شبنم نعمت زادہ کی ہے، جنہیں ملک میں 'ادویات کی مافیا کی خاتون سربراہ‘ کہا جا رہا ہے۔ اس ملزمہ کے والد محمد رضا نعمت زادہ 2013ء سے لے کر 2017ء تک ایران کے وزیر صنعت تھے۔ محمد رضا نعمت زادہ بہت قدامت پسند اور سخت گیر موقف کے حامل ہیں، جو گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران میں کئی مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
ان کی 48 سالہ بیٹی شبنم نعمت زادہ پر الزام ہے کہ انہوں نے کئی کاروباری اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، جسے ایران میں ادویات کی منڈی میں فیصلہ کن غلبہ حاصل تھا۔ ان کمپنیوں کو بیرونی ممالک میں تیار کردہ ادویات کی درآمد اور فروخت کے خصوصی اجازت نامے بھی جاری کیے گئے تھے۔
ایران میں استعمال ہونے والی ادویات کا 90 فیصد سے زائد حصہ اگرچہ ملک میں ہی تیار کیا جاتا ہے تاہم بہت سی خاص طرح کی ادویات، مثال کے طور پر سرطان کے مریضوں کے استعمال میں آنے والی دوائیاں آج بھی بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔
ادویات کی بلیک مارکیٹ
اپنے خلاف امریکا کی عائد کردہ مالیاتی پابندیوں کے باعث ایران نہ تو ایسی خاص طرح کی ادویات درآمد کر سکتا ہے اور نہ ہی ملکی دوا ساز صنعت کی طرف سے تیاری کے لیے ایسی ادویات کے لیے درکار اجزاء دیگر ممالک سے خرید سکتا ہے، کم از کم معمول کے بین الاقوامی تجارتی راستوں سے نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ بہت سی ایسی ادویات جو باضابطہ طور پر ایران میں دستیاب نہیں ہیں، کئی گنا زیادہ قیمت پر اس بلیک مارکیٹ سے خریدی جا سکتی ہیں، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے بعد سے مسلسل پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
ایران کے لیے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ 2015ء میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد اگرچہ کچھ عرصے کے لیے یہ مسئلہ بہت شدید نہیں رہا تھا، لیکن یہی کام تو جوہری ڈیل سے پہلے بھی جاری تھا اور اب بھی ہے۔
پابندیوں کے باوجود چور دروازے
تہران کے خلاف غیر ملکی پابندیوں کے باوجود کوئی نہ کوئی راستہ کیسے نکالا جا سکتا ہے، اس کام میں شبنم نعمت زادہ جیسی کاروباری شخصیات اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے بیرون ملک قائم کردہ اداروں کے ذریعے ایسی ادویات خریدتے ہیں اور پھر ایرانی حکام سے خصوصی اجازت نامے حاصل کر کے انہیں ایران لے آتے ہیں۔ جو کاروباری حلقے یہ کام کرتے ہیں، وہ باخبر، بااثر اور ایرانی نظام کے حامی ہوتے ہیں اور کروڑوں ایرانی شہریوں کو درپیش مسائل ان کے مالی منافع کا سبب بنتے ہیں۔
شبنم نعت زادہ کے ان کے بہت بااثر والد کی وجہ سے ایران میں اعلیٰ ترین حلقوں سے رابطے تھے۔ اب ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ادویات کی ذخیرہ اندوزی کی تھی تاکہ دوائیوں کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں تو ان کا منافع بھی اور زیادہ ہو جائے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے کئی واقعات میں ملکی وزارت صحت کی اجازت کے بغیر ہی کئی طرح کی ادویات براہ راست دوا فروشوں کو فروخت بھی کی تھیں۔
اس دوران حاصل ہونے والا منافع کئی مختلف بینک اکاؤنٹس سے ہوتا ہوا بالآخر ان کے نجی بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا تھا۔ مزید یہ کہ ایرانی حکام کو ان کی کمپنیوں میں سے ایک کے گودام سے ایسی ادویات بھی ملی تھیں، جن کے استعمال کی مقررہ قانونی مدت گزر چکی تھی اور وہ ادویات کسی بھی مریض کو استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے تھیں۔
عدلیہ کے سربراہ تک پھیلی کرپشن
تہران میں مقیم ایرانی تحقیقاتی صحافی محمد موسعید شبنم نعمت زادہ کی ذات سے متعلق اسکینڈل سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ملکی حکام نعمت زادہ کے قائم کردہ مختلف کاروباری اداروں کے نیٹ ورک سے طویل عرصے سے واقف تھے۔ محمد موسعید نے کہا، ''انہیں تو ایک بار پہلے بھی گرفتار کیا گیا تھا، عدلیہ کی طرف سے بدعنوانی کے خلاف ایک وسیع تر مہم کے آغاز کے فوری بعد۔ یہ مہم 2018ء کے شروع میں ملک گیر مظاہروں کے آغاز کے بعد شروع کی گئی تھی۔‘‘
اس مہم کے آغاز کے چند ماہ بعد عدلیہ کے سربراہ نے ایران میں 'اعلیٰ ترین سطح تک‘ کرپشن کے خلاف ایک جامع جنگ کے منصوبے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ کرپشن کے خلاف یہ مہم اب تک کئی ایرانی سیاست دانوں تک کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ اسی کرپشن کے شبے کی زد میں خود ایرانی عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی بھی آ گئے تھے۔ انہوں نے تہران میں بہت مہنگے بنگلوں والے ایک ایسے رہائشی علاقے میں کئی قیمتی املاک بنام ریاست ضبط بھی کر لی تھیں، جسے 'ایرانی دارالحکومت کا بیورلی ہلز‘ کہا جاتا ہے۔
محمد موسعید کے مطابق، ''پھر عدلیہ کے سربراہ کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ لیکن سارا ڈھانچہ تو اب بھی وہی ہے۔ اسی لیے یہ سب کچھ اب بھی محض دکھاوے کی کارروائی لگتا ہے۔‘‘
روحانی کے حامی بھی نگاہ میں
ایرانی معاشرے میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور حکمرانوں نے یہ بات محسوس کرنا شروع کر دی ہے۔
پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی ادیب رضا علیجانی کہتے ہیں، ''اب بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا ہی پڑے گا۔ ایران میں بدعنوانی ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا تعلق نظام سے ہے۔ اس کی جڑیں تیل کی معیشت سے جڑی ہیں۔ تیل سے حاصل ہونے والی دولت کی تقسیم حکمرانوں اور ان کے مخلص پیروکاروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہی بات اس کرپشن کی وجہ بھی ہے، جو ملکی معیشت کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔‘‘
بہت سے ایرانی شہری کرپشن کے خلاف اس جنگ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن یہ شبہ بھی اپنی جگہ ہے کہ یوں قدامت پسند قوتیں اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے مخصوص سیاست دانوں پر نظر رکھتی ہیں، جو مثال کے طور پر صدر روحانی کی حکومت کے قریب ہیں۔ ایرانی عدلیہ کے نئے سربراہ انتہائی قدامت پسند سیاستدان ابراہیم رئیسی ہیں، جنہیں گزشتہ صدارتی الیکشن میں حسن روحانی نے ہرا دیا تھا۔
رئیسی کو اعلیٰ ترین ایرانی مذہبی رہنما علی خامنہ ای کا ممکنہ جانشین بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایرانی جلاوطن ادیب رضا علیجانی کہتے ہیں، ''پابندیوں کی وجہ سے ایران میں وسائل میں کمی ہوئی ہے۔ ریاست کو تیل بیچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی لیے منافع خوروں کا حلقہ بھی لازمی طور پر چھوٹا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
شبنم فان ہائن (م م / ع ا)