امریکی مسلمان خاتون ’جہاد جین‘ کو دس برس کی سزائے قید
7 جنوری 2014امریکی ریاست پینسلوینیا کی رہائشی کولین لاروز عرف ’جہاد جین‘ پہلے ہی ان الزامات کو قبول کر چکی تھی۔ اس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے دہشت گردی کے لیے انتظامی مدد فراہم کرنے کی سازش کی تھی۔ پچاس سالہ کولین لاروز نے انٹرنیٹ پر اپنے لیے ’جہاد جین‘ کا نام منتخب کیا تھا۔ اس پر عائد دیگر الزامات میں بیرون ملک قتل کی سازش، جھوٹے بیانات اور جعلی شناخت اختیار کرنے کی کوشش بھی شامل تھے۔ اسے 2009ء میں امریکی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ لاروز کے ذاتی دستاویزات کے مطابق غالباﹰ اس نے 2007ء میں مذہب اسلام قبول کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک عدالت نے جہاد جین کو پیر کے دن سزا سنائی۔ امریکی اٹارنی برائے ایسٹرن ڈسٹرکٹ پینسلوانیا زان ڈیوڈ میمیگر نے اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو دہشت گردی کی بدلتی ہوئی شکل سے کس قدر خطرات لاحق ہیں۔‘‘ ان کے بقول امریکا پر حملے کرنے کے خواہمشند افراد کو انٹرنیٹ نے سہولت فراہم کر دی ہے، کیونکہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی سوچ کے لوگوں کو تلاش کرتے ہوئے اپنے منصوبہ جات کو پایہء تکمیل پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لاروز کی ایک ساتھی جیمی رامیرَز کو سزا بدھ کے دن سنائی جائے گی۔ اس نے بھی اعتراف جرم کر رکھا ہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق لاروز اور اس کے ساتھیوں نے انٹرنیٹ پر ایسے لوگ تلاش کیے، جنہوں نے یورپ اور جنوبی ایشیا میں ’پرتشدد جہاد‘ میں حصہ لینا تھا۔ اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ایسی خاتون کو بھی منتخب کیا تھا، جو یورپ بھر میں بلا روک ٹوک سفر کر سکتی تھی۔
لاروز کو لارس ولِکس نامی اُس سویڈش کارٹونسٹ کو بھی قتل کرنے کے احکامات ملے تھے، جس نے پیغمبر اسلام کے خاکے بنائے تھے۔ لاروز عرف جہاد جین نے اس حکم پر عمل کرنے کی حامی بھری تھی اور اس نے یورپ جا کر لارس ولِکس تک رسائی حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی تاہم وہ ناکام واپس امریکا لوٹ آئی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ کولین لاروز اگر دوران قید اچھے رویوں کا مظاہرہ کرتی ہے تو اسے رہائی پہلے بھی مل سکتی ہے کیونکہ اسے پانچ سال کے پیرول پر سزا سنائی گی۔ ناقدین کے بقول کولین لاروز کو قدرے نرم سزا سنائی گئی ہے، جس کی وجہ اس کا عدالتی حکام سے تعاون ہوسکتا ہے۔