1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی افواج کے انخلاء کا منصوبہ، طالبان کے حمایتی خوش

6 ستمبر 2019

طالبان کے وفادار اور حمایتی امریکا کے ساتھ ممکنہ معاہدے پر خوش ہیں کہ اٹھارہ سال کی شدید جنگ کے بعد ’’شکست خوردہ‘‘ امریکی ’’حملہ آور‘‘ آخر کار افغانستان چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3PAHd
Irak USA Abzug der letzten US-Soldaten
تصویر: dapd

طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ طالبان کی مختلف یقین دہانیوں کے عوض پینٹاگون اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد انتہائی کم کر دے گا۔ طالبان اور ان کے حمایتی اسے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں، اس حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے قندہار میں متعدد طالبان جنگجوؤں اور ان کے حمایتیوں سے گفتگو کی ہے۔ یہ جنوبی صوبہ افغان طالبان کی جائے پیدائش بھی ہے اور ابھی تک اسے طالبان کا سب سے مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

محمد منظور حسینی ماضی میں طالبان کے لیے لڑتے رہے ہیں لیکن دو سال پہلے وہ پاکستان جا کر روپوش ہو گئے تھے اور اب دوبارہ قندہار آ چکے ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام افغان ایسا امن چاہتے ہیں، جس کی 'بنیاد اسلامی اقدار‘ پر ہو۔ یہ بالکل ویسا ہی جملہ ہے، جو طالبان امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ابھی تک استعمال کرتے آئے ہیں۔

حسینی کا کہنا تھا، ''افغان امن چاہتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ وہ ایک ایسا پروقار امن چاہتے ہیں، جس کی بنیاد اسلامی اقدار پر ہو۔ اور تمام افغانوں کے مابین بھی امن ہونا چاہیے۔‘‘ حیسنی کا مزید کہنا تھا، ''افغانوں کو ایک دوسرے پر اعتبار ہونا چاہیے اور انہیں ایک دوسرے سے مخلص بھی ہونا چاہیے۔ کسی بھی غیر ملکی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘‘ حسینی کے مطابق اگر معاملات کو صحیح انداز میں حل نہ کیا گیا تو یہ جنگ مزید بیس سال تک جاری رہنے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہے۔

USA U. S. Army soll deutlich kleiner werden
تصویر: picture-alliance/dpa

حافظ محمد ولی زابل صوبے کے  ڈسٹرکٹ شاہ جوی میں مالی کا کام کرتے ہیں۔ یہ صوبہ قندہار کے ساتھ ہی واقع ہے۔ وہ بھی یہ خبر سن کر خوش ہیں کہ امریکا اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا، ''ہم تقریبا بیس برسوں سے یہ خبر سننے کے انتظار میں تھے کہ امریکی شرمندگی کے ساتھ افغانستان سے نکل رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''لوگ اب اس ملک میں امن کی دعا کر رہے ہیں۔ ہم بہت لڑ چکے ہیں اور یہ لڑائی آج تک جاری ہے۔‘‘

طالبان کے کئی دیگر حمایتوں کی طرح ولی بھی اس حوالے سے پریشان ہیں کہ آیا افغان حکومت اور طالبان کے مابین بھی کوئی امن معاہدہ طے پا سکے گا؟ ''قصبوں اور دیہاتوں میں افغان کئی برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ کیا یہ ایک ساتھ مل کر بیٹھیں گے؟ صرف میں ہی اس حوالے سے فکرمند نہیں ہوں باقی دیہاتی بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔‘‘

صوبہ ہلمند کی مارجہ ڈسٹرکٹ میں طالبان کمانڈر ملا گل آغا کا کہنا تھا کہ افغان کبھی بھی غیر ملکیوں کو اپنا 'آقا‘ تسلیم نہیں کریں گے، ''افغان عشروں سے حملہ آوروں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ پہلے یہ روسی تھے لیکن آج امریکی اور برطانوی ہیں۔ خدائے عزوجل کی مدد سے ہم نے ایک مرتبہ پھر انہیں شکست دے دی ہے۔‘‘

 ملا گل کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں چوبیس سو سے زائد امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور ہزاروں شدید زخمی ہوئے ہیں، اب امریکا کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا، ''افغان غربت اور سادہ زندگی کو قبول کر لیں گے لیکن کسی کو اپنا آقا تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘

ملا رؤف ماضی میں صوبہ غزنی کے طالبان کمانڈر رہ چکے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اب اٹھارہ سال بعد امن واپس لوٹ آئے گا، ''اس جنگ میں دونوں ہی فریق  تھک چکے ہیں۔ میں خوش ہوں امریکی واپس جا رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے افغان عوام کو جنگ اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ہزاروں افغانوں کو قتل کیا گیا۔ اگر افغان آپس میں ہاتھ ملا لیں تو مزید تباہی اور خونریزی سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘

ا ا / ک م (اے ایف پی)