1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اتحادی شام کا جنوب مغربی حصہ خالی کرتے ہوئے

20 جولائی 2018

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان ڈیل کے تناظر میں شام کے جنوب مغربی حصے سے امریکی حمایت یافتہ شامی شہری دفاع کے کارکنان اور ان کے اہل خانہ کے انخلا کا عمل شروع ہونے کو ہے۔

https://p.dw.com/p/31nRr
Syrien Armee mit russischer Hilfe im Südwesten weiter auf Vormarsch
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Dezhi

شام کے جنوب مغربی حصے میں روس نے باغیوں کو ایک ڈیل پر آمادہ کیا تھا، جس کے تحت انہیں زیرقبضہ علاقہ شام کی حکومتی فورسز کے سپرد کر دینے کے عوض بہ حفاطت انخلا کا موقع دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا اس علاقے میں موجود ’وائٹ ہیلمٹ‘ کارکنان کو ٹرانزٹ کیمپوں میں منتقل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انہیں شام سے باہر دیگر ممالک میں منتقل کر دیا جائے گا، جن میں برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور ممکنہ طور پر کینیڈا شامل ہیں۔

شامی فوج نے درعا پر ملکی پرچم لہرا دیا

ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات میں کیا طے پایا؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی سرحد کے قریب گولان کے پہاڑی سلسلے میں واقع قنطیرہ سے شہری دفاع کے اس عملے کو بہ حفاظت نکالنے کا کام جلد ہی شروع ہو جائے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ وائٹ ہیلمٹس کو اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، تاہم شامی حکومت ان کے بارے میں سخت موقف کی حامل ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان افراد کے انخلا سے متعلق گفت گو گزشتہ ہفتے برسلز میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں بھی کی گئی۔

قنطیرہ میں وائٹ ہیلمٹ سے وابستہ ایک رضاکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ میری زندگی کا بدترین دن ہے۔ مجھے امید ہے کہ مجھے ریسکیو کر لیا جائے گا، اس سے قبل کے بہت دیر ہو جائے۔‘‘

واضح رہے کہ قنطیرہ سمیت متعدد علاقوں سے باغی نکل رہے ہیں اور یہ علاقے جلد ہی مکمل طور پر شامی فورسز کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ حالیہ کچھ عرصے میں شامی فورسز نے ملک کے جنوب میں درعا سمیت متعدد مقامات پر بڑی عسکری کارروائیاں کی ہیں۔ درعا شہر اور نواح کا قریب نوے فیصد علاقہ اب شامی فورسز کے قبضے میں ہے۔ چند روز قبل شامی فورسز نے درعا شہر کے مرکز میں ٹھیک اس مقام پر ملکی پرچم لہرایا تھا، جہاں سن 2011 میں پہلی بار عوام نے شامی صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ درعا ہی وہ پہلا مقام تھا، جہاں حکومت مخالف مظاہروں کی ابتدا ہوئی تھی۔

ع ت، ع ح (اے پی)