1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکہ: کرائے کے قاتل سے بیوی کا قتل کرانے والے کو سزائے موت

11 جنوری 2023

65 سالہ شخص کو منگل کو دن میں سزائے موت دی جانی تھی، تاہم عدالتی کارروائی کی وجہ سے کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔ سابق پولیس افسر کرائے کے قاتلوں کی مدد سے اپنے بیوی کے قتل کرنے کے مجرم تھے۔

https://p.dw.com/p/4Lzt0
USA Todesstrafe Virginia
تصویر: Steve Helber/AP Photo/picture alliance

امریکی ریاست ٹیکساس کے حکام نے بتایا ہے کہ تقریباً 30 برس قبل، جس سابق پولیس افسر پر اپنی بیوی کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، انہیں منگل کی رات کو آخری لمحات کی قانونی چارہ جوئی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔

امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں موت کی سزا ختم کرنے کی جانب اہم پیش رفت

 حکام کے مطابق 65 سالہ رابرٹ فریٹا کو منگل کو دن میں ہی سزائے موت دی جانی تھی، تاہم ٹیکساس کے جج کے ایک اچانک فیصلے کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک مہلک انجیکشن کی مدد سے سزائے موت پر عمل ٹل گیا۔

امریکہ میں خاتون کی سزائے موت پر عملدرآمد

آخری عدالتی چارہ جوئی  

منگل کی صبح ایک ہنگامی سماعت کے بعد ڈسٹرکٹ جج کیتھرین ماؤزی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکام کا موت دینے کے لیے جس دوا کا استعمال کرنے کا ارادہ ہے وہ استعمال نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ ''غالباً ایک غیر قانونی عمل ہو گا، کیونکہ اس دوا کی میعاد ختم ہونے کا امکان زیادہ ہے۔''

سزائے موت: آخر کب تک؟

رابرٹ فریٹا نے موت کی سزا کے منتظر متعدد دیگر قیدیوں کے ساتھ مل کر آخری لمحات میں عدالت میں اپیل دائر کی تھی، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ معیاد ختم ہونے والی مہلک دوا 'پینٹو باربیٹل' کا استعمال ایک ظالمانہ سزا ہو گی اس لیے امریکی آئین کے تحت اس کے استعمال پر روک لگنی چاہیے۔

ضلعی سطح کی عدالت نے روک لگا دی، تاہم ٹیکساس کی اعلی عدالت نے ماؤزی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس سزا پر عمل کرنے کا حکم  دیا۔ ریاستی سپریم کورٹ نے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مہلک انجکشن کے استعمال کی اجازت دے دی۔

USA Todesstrafe Virginia
رواں برس کے ابھی محض گیارہ روز گزرے ہیں اور رابرٹ فریٹا امریکہ میں پھانسی کی سزا پانے والے دوسرے قیدی ہیںتصویر: Steve Helber/AP Photo/picture alliance

ٹیکساس کے محکمہ انصاف کی طرف سے منگل کی رات کو ایک بیان میں کہا گیا کہ فریٹا کو شام کے تقریباً سات بج کر 50 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا اور موت سے قبل انہوں نے اپنا کوئی آخری بیان بھی نہیں دیا۔

رابرٹ فریٹا پر الزام کیا تھا؟

رابرٹ فریٹا سن 1994سے ہی جیل میں تھے، جب استغاثہ نے ان پر اپنی اہلیہ کو قتل کرنے کے لیے اپنے ایک جاننے والے سے رابطہ کرنے کا الزام عائد کیا، جس نے 33 سالہ فرح فریٹا کو قتل کرنے کے لیے انہیں کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔

قانونی دستاویزات کے مطابق میاں اور بیوی میں طلاق اور اپنے تین بچوں کی تحویل کے حوالے سے تلخ لڑائی چل رہی تھی۔ عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ رابرٹ فریٹا نے اس وقت ''اپنے بہت سے دوستوں اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اسے مار ڈالیں یا کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائیں، جو اسے قتل کر سکتا ہو۔''

ابتدائی طور پر ان کے اکثر دوستوں کا خیال یہ تھا کہ شاید وہ مذاق کر رہے ہیں، یا پھر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب وہ اس بارے میں اور زیادہ بات کرتے رہے، تو ان میں سے کچھ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔

پھر فریٹا نے اپنے جم کے ایک ساتھی شخص سے رابطہ کیا، جس نے ایک کرایے کے قاتل کی خدمات فراہم کیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق فریٹا نے اس شخص کو اپنی بیوی کے قتل کے لیے ایک ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔

فریٹا کو پہلی بار سن 1996میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن 2007 میں ایک تکنیکی وجہ سے اس فیصلے کو پلٹ دیا گیا تھا۔ پھر دوسری سماعت کے بعد سن 2009 میں انہیں پھر سے سزائے موت سنائی گئی۔

ان کے وکلاء نے متعدد اپیلیں دائر کیں تاہم وہ سب ناکام ہوئیں۔ حتیٰ کہ وکلاء نے امریکی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا اور ان کی پھانسی

 کو روکنے کے لیے یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ مقدمے میں ایک گواہ سے گواہی ہیپنوسس کی مدد سے حاصل کی گئی تھی، تاہم کامیابی نہیں ملی۔

امریکہ میں موت کی سزا کے لیے ہلاکت خیز انجیکشن 'پینٹو باربیٹل' استعمال کیا جاتا ہے، جس کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ بہت سی دوا ساز کمپنیوں نے سزائے موت سے کنارہ کشی کے لیے اس دوا کی پیداوار کو اس قدر محدود کر دیا ہے کہ اس کا ملنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے۔

رواں برس کے ابھی محض گیارہ روز گزرے ہیں اور رابرٹ فریٹا امریکہ میں پھانسی کی سزا پانے والے دوسرے قیدی ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

موت کی سزا پانے والے قیدی جیل میں کن مراحل سے گزرتے ہیں