1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور سرویلنس کیمروں پر پابندی لگادی

26 نومبر 2022

امریکی جاسوسی امور کے سربراہوں نے متنبہ کیا تھا کہ امریکہ اقتصادی جاسوسی یا ڈیجیٹل تخریب کاری کا شکار ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد چینی ٹیک کمپنیاں ہواوے، زیڈ ٹی ای اور ہائک ویژن اور داہوا کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4K7C7
China Hikvision Überwachungskameras
تصویر: Wang Gang/dpa/picture-alliance

امریکی  ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹرز نے چینی  ٹیلی کمیونیکیشن اور ویڈیو سرویلنس آلات سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے جمعہ 25 نومبر کو ٹیک کمپنیاں ہواوے، زیڈ ٹی ای اور سرویلینس کیمرہ ساز کمپنیاں ہائک ویژن اور داہوا کی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

یہ فیصلہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بیجنگ کی ممکنہ جاسوسی کے بارے میں اٹھائے گئے خدشات اور کانگریس کی جانب سے گزشتہ برس منظور کردہ ایک قانون کے بعد کیا گیا ہے۔

امریکی کمپنیوں کی جاسوسی، چینی فوجیوں پر فرد جرم عائد

امریکی قانون سازوں نے اس بات پر بھی تنقید کی ہے کہ کس طرح چینی ٹیکنالوجی کو بیجنگ حکام اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ نے کیا اعلان کیا؟

امریکی ٹیلی کام ریگولیٹر، فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے ملک کے مواصلاتی نیٹ ورک کی حفاظت کے لیے نئے قوانین کو اپنایا ہے۔

بیان کے مطابق چینی ٹیک کمپنیاں ہواوے ٹیکنالوجیز اور زیڈ ٹی ای کارپوریشن کے تیار کردہ آلات پر پابندی ہوگی۔ یہ دونوں کمپنیاں پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکی پابندیوں کی زد میں آچکی تھیں۔

نئے قوانین کا اطلاق ہائیک ویژن اور داہوا پر بھی ہوگا، جن کے تیار کردہ ویڈیو سرویلنس کیمرے پوری دنیا میں نصب ہیں۔ لیکن ان سے رازداری کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ دو طرفہ بات چیت کے لیے استعمال ہونے والے ریڈیو بنانے والی کمپنی ہائٹیرا پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

چینی اور روسی ہیکرز سائبر جاسوسی میں ملوث ہیں، امریکہ

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ان کمپنیوں، جو کہ چین کے قومی انٹیلی جنس قوانین کے تابع ہیں، کو بیجنگ کی سکیورٹی سروسز کو معلومات دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان کمپنیوں نے اس کی تردید کی ہے۔

ہائیک ویژن کے کیمروں کو چین کے سنکیانگ صوبے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے جوڑا گیا ہے۔

ایف سی سی کی چیئر پرسن جیسیکا روزن ورسیل کا کہنا تھا، ''ایف سی سی ہماری قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ ناقابل بھروسہ مواصلاتی آلات کو ہماری سرحدوں کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''یہ نئے قوانین امریکی عوام کو ٹیلی مواصلات سے متعلق قومی سلامتی کے خطرات سے بچانے کے لیے ہماری مسلسل کارروائیوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔‘‘

’بے مثال قدم‘

ایف سی سی کے کمشنر برینڈن کار نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں اسے ایک ''بے مثال قدم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریگولیٹر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایگزیکٹیوز نے قومی سلامتی کے خدشات پر نئے آلات کی ممانعت کے حق میں ووٹ دیا۔

امریکا: ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندی کی کارروائی ختم

انہوں نے کہا، ''اس حکم کے نتیجے میں ہواوے یا زیڈ ٹی ای کے نئے آلات کی تنصیب کی منظوری نہیں دی جاسکتی اور داہوا، ہائیک ویژن یا ہائٹرا کے آلات کو اس وقت تک منظور نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ ایف سی سی کو یہ یقین نہ دلا دیں کہ ان کے آلات عوامی تحفظ، سرکاری تنصیبات کی سکیورٹی اور دیگر قومی سلامتی کے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔‘‘

برطانوی حکومت نے حساس عمارتوں کے اندر چینی ساختہ سکیورٹی کیمرے  لگانے سے روکنے کا حکم  24 نومبر کو جاری کیا تھا
برطانوی حکومت نے حساس عمارتوں کے اندر چینی ساختہ سکیورٹی کیمرے  لگانے سے روکنے کا حکم 24 نومبر کو جاری کیا تھاتصویر: Jan Haas/picture alliance

برطانیہ کی چینی ساختہ کیمروں پر پابندی کا فیصلہ

جمعرات 24 نومبر کو برطانوی حکومت نے اپنی وزارتوں کو ممکنہ سکیورٹی خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے حساس عمارتوں کے اندر چینی ساختہ سکیورٹی کیمرے  لگانے سے روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔

برطانوی وزیر اولیور ڈاؤڈن نے پارلیمنٹ کو اپنے ایک تحریری بیان میں بتایا، ''سکیورٹی جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانیہ کو لاحق خطرات اور ان سسٹمز کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں اور ان کے روابط کی روشنی میں، اضافی کنٹرول کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مختلف وزارتوں کو ان کیمروں کو اپ گریڈ کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے ان کو تبدیل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

گزشتہ جولائی میں پرائیویسی ایڈووکیسی گروپ 'بگ برادر واچ‘ نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کے زیر استعمال زیادہ تر سرویلنس کیمرے دو چینی کمپنیوں، 'ہیک ویژن‘ اور 'داہوا‘ کے تیار کردہ ہیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے فوراً بعد 67 برطانوی قانون سازوں نے چینی حکومت کی جزوی طور پرملکیت والی دونوں کمپنیوں کے ذریعے تیار کردہ ان آلات پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سن 2020 میں ڈی ڈبلیو نے انکشاف کیا تھا کہ یورپی یونین برسلز میں اپنی عمارتوں پر نصب ہائیک ویژن کے تھرمل امیجنگ کیمروں کو کووڈ انیس کی علامات کی اسکریننگ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

پیگاسس، کیسے جاسوسی کرتا ہے؟

نک مارٹن، روئٹرز کے ساتھ (ج ا/ا ب ا)