1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ نے ابھرتی ہوئی عسکری طاقتوں پر توجہ مرکوز کر دی

6 جنوری 2012

امریکی صدر باراک اوباما نے ایسی عسکری حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت زمینی دستوں کی تعداد میں کمی اور ابھرتی عالمی عسکری طاقتوں سے مسابقت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/13f3H
تصویر: dapd

پالیسی کے تحت زمینی دستوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی جبکہ جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں، میزائل دفاعی دفاعی نظام اور دیگر جدید جنگی ساز و سامان پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی۔ صدر باراک اوباما نے وزیر دفاع لیون پنیٹا اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے ہمراہ وزارت دفاع پینٹاگون کی عمارت میں صحافیوں کے سامنے اس نئی پالیسی کے خدوخال بیان کیے۔

اس پالیسی کا ایک اور اہم مقصد آنے والے دس برس کے دوران دفاعی اخراجات میں 487 ارب ڈالر کی کمی لانا بھی ہے۔ جمعرات کو منعقدہ اس پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے دنیا پر واضح کیا کہ اُن کا ملک دفاعی اخراجات میں کمی کے باوجود دنیا کی اولین عسکری قوت رہے گا۔ ’’ دنیا یہ جان لے کہ امریکہ اپنی اُن افواج کے ساتھ عالمی عسکری برتری برقرار رکھے گا جو ہر قسم کے خطروں سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔‘‘   

نئی پالیسی کو بالخصوص چین کے بڑھتے ہوئے عالمی عسکری اثر و رسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت براعظم ایشیا پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ’’ ہم ایشیا پیسیفک میں اپنی موجودگی کو مضبوط کریں گے اور اخراجات میں کمی کا اثر اس اہم خطے پر نہیں پڑے گا۔‘‘

Obama Afghanistan Bagram
امریکی صدر کے بقول ان کا ملک عسکری برتری برقرار رکھے گاتصویر: AP

وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق اس حکمت عملی کی تیاری کے مراحل میں صدر اوباما فوجی قیادت کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے تھے اور انہوں نےان کے صلاح و مشوروں پر بڑی حد تک عمل بھی کیا۔ اس حکمت عملی سے متعلق آٹھ صفحات پر مبنی دستاویز کے مطابق امریکہ خلیج میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وہاں استحکام کو ممکن بنائے گا اور عدم استحکام سے متعلق ایرانی پالیسیوں کا مقابلہ کرے گا۔

وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اس موقع پر کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت مشرق وسطیٰ میں بھی عسکری قوت برقرار رکھی جائے گی۔ وزیر دفاع پنیٹا کے بقول، ’’عراق میں جنگی مشن کے خاتمے اور افغانستان متعین افواج میں کمی کے بعد بڑے پیمانے اور طویل مدت کے آپریشن کے لیے بری دستوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں