امریکہ میں بے روزگاری کے معیشت پر اثرات
7 اگست 2010امریکی وزارتِ محنت کی طرف سے بے روزگاری اور نوکریوں میں کمی کے بارے میں اعداد و شمار کی تفصیلات عام ہونے کے بعد اسٹاک مارکیٹوں میں مندی چھا گئی۔ ایک لاکھ 31 ہزار روزگار کے مستقل مواقع ختم ہونے کی خبر نے بحال ہوتی امریکی اقتصادیات پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
امریکی وزارتِ محنت کا یہ بھی کہنا ہے کہ نجی کمپنیوں کی جانب سے 70 ہزار سے زائد نوکریوں کی فراہمی سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا اور یہ شرح بدستور ساڑھے نو فیصد پر قائم ہے۔ جولائی ہی میں ایک لاکھ 43 ہزار عارضی یا جز وقتی روز گار کی اسامیاں ختم ہوئیں۔
رواں سال کے ماہ جولائی میں سوا لاکھ سے زائد نوکریوں کو ختم کئے جانے کی رپورٹ نے امریکی مالی منڈیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اسٹاک مارکیٹوں میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں میں مندی کا رجحان غالب ہو گیا اور کئی سودوں میں خاصا نقصان دیکھا گیا۔ ڈاؤ جونز میں ٹریڈنگ میں ایک فی صد سے زائد کمی واقع ہوئی۔ بعدازاں مندی کی صورت حال بہتر ضرور ہوئی لیکن کاروباری حضرات کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچی وہ بحال نہیں ہو سکی۔
امریکی مالی منڈیوں کی مندی کی بازگشت یورپی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی دیکھی گئی۔ لندن، پیرس اور فرینکفرٹ میں حصص کی قیمتوں میں کمی کا رجحان واضح طور پر سامنے آیا۔
روزگار کی صورت حال پر ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ تازہ اعداد شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اقتصادیات بدستور سست روی سے آگے ضرور بڑھ رہی ہے اور اس سے معاشی استحکام کی صورت ابھر تو رہی ہیں لیکن اس کو شاندار نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری سہ ماہی کے دوران امریکہ کی شرح پیداوار میں تیزی پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ رفتار پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں کم تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی پرائیویٹ کاروباری ادارے کمزور اور عدم اعتماد کا شکار ہیں اور وہ پھونک پھونک کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ امریکہ کے صنعتی پیداواری کارخانوں میں جولائی کے دوران 36 ہزار پروفیشنلز کو دوبارہ نوکریاں دی گئی ہیں۔
اس مناسبت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوکریاں دینے کی موجودہ رفتار انتہائی سست ہے اور کساد بازاری کے سالوں میں اسی لاکھ افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اس رفتار سے تو فارغ کئے گئے افراد اگلے پانچ سالوں میں بھی نوکریوں پر بحال نہیں ہو سکیں گے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ