1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

’گلوبل سوِنگ اسٹیٹس‘، علاقائی سیاست میں تبدیلی کا پیشہ خیمہ

2 مئی 2023

مغرب عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بحال رکھنے کے لیے ابھرتے ہوئے بلاک ’سونگ اسٹیٹس‘ کے ساتھ با معنی رابطہ کاری بڑھائے۔ یہ بات واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’جرمن مارشل فنڈ‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4QoNP
تصویر: TUR Presidency/Murat Cetinmuhurdar/Handout/AA/picture alliance

رپورٹ کے مصنفین نے برازیل، انڈونیشیا، سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ترکی کو ’سونگ اسٹیٹس‘ کا نام دیا ہے، جو عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں اور جن میں سے ہر ایک امریکہ اور یورپ سے تعلقات سے ہٹ کر تعاون کے لیے مختلف ترجیحات رکھتا ہے۔

یہ ممالک عالمی معاملات میں اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، خاص طور پر روس کی طرف سے یوکرین پر حملے اور  امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں۔

جرمن مارشل فنڈ کے صدر ہیتھر اے نے ان ریاستوں کے حوالے سے لکھا، ’’ بین الاقوامی سطح پر مواقع موجود ہیں اور یہ ممالک سفارتی اور معاشی طور پر انٹرپرینیور ہیں۔‘‘

بین الاقوامی تعاون کے لیے لچک کی ضرورت ہے

اس رپورٹ کے مطابق برازیل کے ساتھ پارٹنر شپ کافی مفید ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی قیادت مختلف پارٹنرز جیسے چین، یورپی یونین، روس اور امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں سمجھتی۔

مغرب کو اسی لیے عالمی اہمیت کے معاملات جیسے ماحولیاتی تبدیلیاں اور عدم مساوات پر تعاون کو بڑھانا چاہیے، اور روایتی طاقتوں سے دوری کے عمل کو قبول کرنا چاہیے۔

جنوبی افریقہ بھی ایک سے زیادہ طاقتوں والی دنیا کا حامی ہے اور خود کی عالمی جنوب کے حامی کے طور پر شناخت کراتا ہے۔

ایشیائی منڈیوں تک رسائی کی روسی کوشش

رپورٹ کے مطابق مغربی رہنما پالیسی سے متعلق ایسے مخصوص معاملات میں تعاون بڑھا سکتے ہیں جو باہمی طور پر فائدہ مند ہوں۔

اس رپورٹ کے دو مصنفین مارٹن کوئنسز اور ریچل ٹاؤزینڈ فروئنڈ نے لکھا، ’’ان جھولتی یا سوئنگ ریاستوں کی حکومتیں خود کو دو مستقل قطبین میں سے کسی ایک کو چننے کی قائل نہیں سمجھتیں۔ بلکہ وہ اس بات کو ترجیح دیں گی کہ وہ مستقل طور پر، مختلف معاملات پر، اپنی مخصوص ترجیحات اور تزویراتی ضرورتوں کی بنا پر کسی ایک جانب جھکاؤ سے دوسری جانب منتقل ہو جائیں۔‘‘

بڑے طاقتوں کے درمیان توازن

چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے سرحدی تنازعے کے تناظر میں بھارت مغرب کے زیادہ قریب ہو رہا ہے، مگر اس کے تزویراتی اہداف کا تقاضہ ہے کہ یہ روس جیسی اقوام کے ساتھ بھی سرگرم تعلقات قائم رکھے۔

رپورٹ کے مطابق مغرب کو ’ہم اور ان کی‘ ذہینت کو چھوڑتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاملات کرنا ہوں گے کیونکہ یہ طریقہ کار بھارت کی سفارت کاری پر پورا نہیں اترتا۔

انڈونیشیا کا ہدف بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش سے دور رہنا رہنا ہے اور وہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنے تنازعات امریکی مدد کے بغیر نمٹاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایک صدی سے زائد دورانیے کے نوآبادیاتی دور اور سرد جنگ کے دوران مغربی زیادتیوں کے تناظر میں نئی غیر لبرل پالیسیوں پر مغرب کی تنقید انڈونیشیائی قانون سازوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

مارٹن کوئنسز اور ریچل ٹاؤزینڈفروئنڈ نے لکھا، ’’ایک زیادہ تعمیری خارجہ پالیسی پر رابطہ کاری قومی خودمختاری اور کثیرالجہتی حوالے سے باہمی احترام پر مرکوز ہو سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا ہے، ’’سوئنگ ریاستیں عام طور پر روسی اور چینی عزائم سے لاحق خطرات کو تسلیم کرتی ہیں، لیکن وہ امریکہ یا یورپ کو بھی قومی خودمختاری کے قابل اعتبار عالمی چیمپئن نہیں سمجھتیں۔‘‘

دفاع اور تجارت کے لیے مختلف پارٹنرز

ترکی کی حکمت عملی بڑی طاقتوں کے درمیان چپقلش کے تناظر میں توازن قائم کرنے کی کوشش رہی ہے جس کا ثبوت یوکرین کی جنگ میں اس کی حالیہ ثالثی ہے۔

یہ نیٹو کا ایک اہم رکن اور یورپی یونین کا قریبی اقتصادی شراکت دار ہے، لیکن دنیا کو ’پانچ سے بڑا‘ سمجھتا ہے۔ یعنی جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہیں۔

سعودی عرب بھی مغربی ممالک کے ساتھ قریبی سکیورٹی تعلقات رکھتا ہے یعنی امریکہ، لیکن روس کو اوپیک پلس کا اہم شراکت دار اور چین کو اپنا اہم تجارتی شراکت دار مانتا ہے۔

بھارت روس پر لگی پابندیوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں سے ایک

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغرب کو دوسرے ممالک کی جانب سے عالمی ثالثی کو مسترد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ریاض مشرق وسطیٰ کی جانب امریکی توجہ میں کمی کے تناظر میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہا ہے۔

مجموعی طور پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ کو تعاون میں لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے، غیر مغربی تعاون کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جغرافیائی سیاسی شراکت داروں کو اس پر مجبور کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ وہ کسی ایک کو چنیں۔

مصنفین کے مطابق، ’’غیر مرکزی سیاسی کرداروں کے ساتھ تعلقات بنانے سے تمام شراکت داروں کو طویل المدتی فائدے ملنے کا امکان ہے۔‘‘

زیک کریلِن (ا ب ا/ا ا)