1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں کابل شامل ہے‘

16 فروری 2012

افغان صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ سہ فریقی خفیہ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔ اس اعلان کے بعد امید ہے کہ باقاعدہ امن مذاکرات چند ہی مہینوں میں شروع کیے جاسکیں گے۔

https://p.dw.com/p/143uW
تصویر: AP

واضح رہے کہ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ حامد کرزئی کی انتظامیہ کٹھ پتلی ہے اور وہ محض امریکہ سے ہی مذاکرات کریں گے۔ گزشتہ ماہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں کی خبریں عام ہوئی تھیں اور کہا جارہا تھا کہ افغان حکومت اس عمل میں براہ راست شریک نہیں اور اس پر کابل حکومت نے اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا تھا۔ صدر کرزئی نے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کابل حکومت اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہے اور طالبان قیادت غیر ملکی فوج کے انخلاء کی صورت میں امن معاہدے کے لیے تیار ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کو دیے گئے انٹرویو میں صدر کرزئی نے کہا، ’’ افغانستان کے لوگ امن چاہتے ہیں، طالبان بھی ہم سب کی طرح ہیں وہ بھی امن چاہتے ہیں، ان کے بھی اہل و عیال اور رشتہ دار ہیں اور وہ سخت زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

Afghanistan Hamid Karzai lässt inhaftierte Kinder frei
افغان صدر اس کم عمر لڑکے سے گلے مل رہے ہیں جو مبینہ طور پر خود کش حملے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا، فائل فوٹوتصویر: AP

افغان صدر کے بقول، ’’ امریکی حکومت اور طالبان کے مابین رابطے ہوئے ہیں، افغان حکومت اور طالبان کے مابین بھی رابطے ہوے ہیں، اور ایسے بھی رابطے ہوئے ہیں جن میں ہم سب بشمول طالبان شامل تھے۔‘‘ افغان صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان یا کسی دوسرے ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ پڑوسی ملک کے تعاون سے، ’’یہ تمام معاملہ ہمارے لیے بھی، طالبان کے لیے بھی اور امریکہ کے لیے بھی آسان ہوجائے گا۔‘‘

طالبان کی جانب سے گزشتہ ماہ ان اطلاعات کی تصدیق سامنے آئی تھی کہ وہ خلیجی ریاست قطر میں ایک نمائندہ دفتر کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اعتماد سازی کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے گوانتاناموبے جیل میں قید پانچ طالبان رہنماوں کو قطر منتقل کرنے اور افغانستان میں بعض مخصوص مقامات میں محدود جنگ بندی کی باتیں سامنے آچکی ہیں۔

حالیہ انٹرویو میں صدر کرزئی نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکی فوج کی قدرے طویل عرصے تک موجودگی پر بھی آمادہ ہوجائیں۔ ’’ طالبان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ ملک اور یہاں کے لوگ مزید صعوبتیں برداشت کریں۔‘‘امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجیک معاہدے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کابل حکومت امریکہ کے ساتھ شراکت داری کی حتیٰ الامکان کوشش کرے گی۔ اس وقت واشنگٹن اور کابل کے مابین اسٹریٹیجیک معاہدے کی راہ میں امریکی فوجیوں کے لیے قانونی استثنیٰ کا معاملہ ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ یہی نکتہ عراق اور امریکہ کے مابین اسٹریٹیجیک معاہدہ نہ ہونے کی وجہ بنا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق واشنگٹن حکومت کی کوشش ہے کہ رواں سال شکاگو میں بین الاقوامی افغانستان کانفرنس کے موقع پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ روئٹرز کے مطابق یہ امریکہ اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اس کے اتحادیوں کی بھی فتح ہوگی جو گزشتہ دس سال سے طالبان کی مزاحمت کا سلسلہ توڑنے میں ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عابد حسین