امریکا کے ساتھ مذاکرات، طالبان تیار ہیں
12 ستمبر 2018طالبان حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور راؤنڈ کے لیے رضامند ہیں۔ ایسا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس دوسرے مرحلے میں قیدیوں کے تبادلے یا رہائی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اعتماد سازی کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کے لیے پس پردہ کوششوں کے بجائے باضابطہ مذاکرات شروع کرنے کے موضوع پر بنی تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔
بعض طالبان حکام نے یہ تفصیلات اپنے نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتائی ہیں۔ یہ تفصیلات بیان کرنے والوں میں ایک اہلکار عرب ریاست قطر میں مقیم ہے۔ اس ریاست کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہے۔ اس اہلکار کے مطابق وہ امریکی ردعمل کے منتظر ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے اس تناظر میں یعنی مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اسی طرح مذاکراتی عمل کے لیے اگلی تاریخ کے حوالے سے بھی کوئی جواب دینے سے گریز کیا ہے۔ سابقہ ملاقات کو افغانستان میں قیام امن کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا گیا تھا۔
اسی دوران روسی دارالحکومت ماسکو میں رواں ماہ کے اوائل میں ہونے والے امن مذاکرات میں بھی طالبان نے شرکت کی حامی بھری تھی لیکن یہ مذاکرات بعد میں ملتوی کر دیے گئے تھے۔ ماسکو امن ڈائیلاگ میں کابل حکومت اور امریکا نے شریک نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں رواں برس جولائی میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات دوحہ میں منعقد ہو چکے ہیں ۔ اس مذاکراتی عمل میں اعلیٰ امریکی خاتون سفارتی اہلکار ایلس ویلس بھی شریک تھیں۔ یہ امر اہم ہے کہ جولائی میں ہونے والی میٹنگ میں طالبان اور امریکی حکام نے اتفاق کیا تھا کہ اگلا اجلاس رواں برس ستمبر میں ممکن ہے۔