1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

امریکا نے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے

26 مارچ 2022

طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند رکھنے کا فیصلہ منگل کو سامنے آیا۔ اس کے رد عمل میں امریکا نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/494jg
Afghanistan I Höhere Schulbildung für Mädchen nur noch in Mazar-i-Sharif
تصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat/AA/picture alliance

طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کرا دینے کے فیصلے کے تناظر میں امریکا نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔ محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے جمعے کو اپنی پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ دوحہ فورم میں ہونے والی تمام ملاقاتیں معطل کر دی گئی ہیں اور طالبان قیادت کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ امریکا کے ان کے ساتھ تعلقات میں اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ بند ہونا بڑا دھچکا، اقوام متحدہ

افغانستان: چین اور طالبان تعاون کو وسعت دینا چاہتے ہیں

افغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ

گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد یہ ملک افراتفری کا شکار ہے۔ افغانستان کو شدید انسانی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں انہیں عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے اور امداد کی اشد ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے لیے تعلیم کی فراہمی عالمی برادری کے اہم ترین مطالبات میں شامل ہے۔ طالبان نے کئی ماہ کے بعد لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولے اور چند گھنٹوں بعد ہی دوبارہ بند کرا دیے۔

محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے نامہ نگاروں کو بتایا، "اگر طالبان کی طرف سے یہ فیصلہ فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو اس کے نتیجے میں افغان عوام، اقتصادی ترقی کے امکانات اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے طالبان کے عزائم کو شدید نقصان پہنچے گا۔" انہوں نے مزید کہا، "افغانستان کے مستقبل اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ طالبان کے تعلقات کی خاطر ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے اور اپنے عوام کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔"

طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول بند رکھنے کا فیصلہ منگل کو دیر  گئے جنوبی شہر قندھار میں سینئر حکام کی ایک میٹنگ کے بعد سامنے آیا، جو ان کی تحریک میں طاقت کے مرکز  کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ناروے اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے علاوہ یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندگان نے کہا کہ طالبان کے فیصلے سے گروپ کی قانونی حیثیت کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔

جب طالبان اقتدار میں واپس آئے تو انہوں نے سن 1996 سے سن 2001 تک اپنی پہلی حکومت کے مقابلے میں نرم رویہ اختیار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اسلامی شریعت کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن طالبان نے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کیں، سرکاری ملازمتوں سے انہیں دور رکھا،  ان کے مخصوص لباس پر بھی پابندی عائد کی گئی اور ان کے تناہ گھروں سے باہر نکلنے اور سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔

پاکستان میں تعلیم کے حق سے محروم افغان بچے

ع س / ک م (اے ایف پی)