1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتشمالی امریکہ

امریکا میں کورونا کی چوتھی لہر کا خدشہ

2 مارچ 2021

ویکسین کی تیزی سے دستیابی کے بعد کئی ریاستیں سماجی پابندیاں اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔

https://p.dw.com/p/3q7Dd
Weltspiegel 19.02.2021 | USA New York | Schneespaziergang
تصویر: Angela Weiss/AFP/Getty Images

پیر کو ریاست میسیچوسیٹس نے لوگوں کے باہر نکلنے کے حوالے سے کچھ نرمیوں کا اعلان کیا۔ ریاست میزوری کے دو بڑے شہروں سینٹ لوئس اور کینساس میں بھی کچھ پابندیاں اٹھائی گئیں۔

ادھر ریاست آیووا میں بھی گورنر نے حال ہی میں لازمی ماسک پہننے کی ہدایت میں نرمی کی اور بارز اور ریستورانوں میں لوگوں کی تعداد بڑھانے کی اجازت دی۔

امریکا میں پابندیوں میں اس نرمی پر کاروباری لوگ خوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ ویکسین لگنا شروع ہوگئی ہے، روز مرہ کی زندگی کو بتدیج معمول پر آنا چاہییے۔

ویکسین کی فراہمی

امریکا میں اب تک بیس فیصد آبادی یعنی کوئی پانچ کروڑ لوگوں کو کورونا ویکسین کا کم از کم ایک ٹیکا لگایا جا چکا ہے جبکہ دس فیصد آبادی کو پچھلے ڈھائی ماہ کے دوران پوری طرح ویکسین دی جا چکی ہے۔

تاہم صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جلد بازی میں کاروبار دوبارہ کھولنے سے صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کی نئی مہلک اقسام سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے۔

CDC Centers for Disease Control and Prevention
تصویر: picture-alliance/dpa

جنوری سے امریکا کے ہسپتالوں میں کیسز کی تعداد میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اموات کی شرح بھی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق یہ تعداد اب بھی خطرناک حد تک زیادہ ہے اور حالیہ چند دنوں میں اس میں کچھ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

تشویش برقرار

امریکا میں وبائی امراض پر قابو پانے کے مرکزی ادارے سی ڈی سی کی سربراہ روشیل والینسکی نے ریاستی حکام اور عام امریکیوں کو متنبے کیا ہے کہ محتاط رہیں۔

پیر کو ایک بیان میں انہوں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کے بعض حصوں میں حکام ان کی بتائی ہوئی حفاظتی ہدایات کے برعکس اقدامات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "مجھے اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ہم اس وبا سے نمٹنے میں کس طرف جا رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اگر ترجیحات یہی رہیں تو خدشہ ہے کہ "ہم نے اب تک اپنی انتھک محنت سے جو پیش رفت کی ہے وہ سب ضائع ہو جائے گی۔"

روشیل والینسکی کے مطابق امریکا میں اب بھی روزانہ 70000 ہزار کیسز اور 2000 اموات ناقابل قبول ہیں۔