امریکا میں پولیس کی گولی کا نشانہ بننے والا بچہ چل بسا
24 نومبر 2014ڈپٹی چیف ایڈ ٹومبا کا کہنا ہے کہ بچے نے جعلی ہتھیار نکالا تو پولیس اہلکار نے اس پر دو فائر کیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نے پستول پولیس اہلکار پر نہیں تانی تھی۔ یہ واقعہ ہفتے کو امریکی ریاست اوہاہیو کے شہر کلیولینڈ میں پیش آیا تھا۔ تاہم اتوار کو وہ لڑکا چل بسا۔
ٹومبا نے بتایا کہ اس بچے نے کوئی دھمکی آمیز بات نہیں کی تھی تاہم جب اسے ہاتھ اٹھانے کے لیے کہا گیا تو اس نے جعلی پستول پکڑ لی۔
طبی حکام نے اس کو ٹیمر رائس کے طور پر شناخت کیا ہے۔ اس کے خاندان کی طرف سے ایک وکیل ٹیموتھی کچارسکی کا کہنا ہے کہ وہ بچہ ہفتے کو اپنے دوستوں کے ساتھ ایک پارک میں گیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس پہلو سے لاعلمی ظاہر کی کہ کون سی بات فائرنگ کی وجہ بنی۔
انہوں نے کہا: ’’میں جلد بازی میں فیصلے پر نہیں پہنچنا چاہتا۔‘‘
کچارسکی نے مزید کہا کہ بالآخر اس بات کا پتہ چلا لیا جائے کہ پارک میں ہوا کیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق محکمہ پولیس اس معاملے کی تفتیش کر رہا ہے اور اس میں ملوث دونوں پولیس اہلکاروں کو انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ امریکا کا دفتر استغاثہ بھی اس معاملے کی تفتیش کر رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص نے پولیس کو فون پر اطلاع دی تھی کہ پارک میں ایک لڑکا ایک پستول لہراتے ہوئے ہر کسی کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ تاہم اس نے پستول کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں اپنی بے یقینی کا اظہار بھی کیا تھا۔
اُدھر امریکی ریاست میسوری کے شہر فرگوسن میں رواں برس اگست میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کی تفتیش کرنے والی گرینڈ جیوری کی ملاقات آج متوقع ہے۔ اس تناظر میں شہر میں سرکاری عمارتوں کے گرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
میسوری کے شہر فرگوسن میں اگست میں ایک غیر مسلح سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ اٹھارہ سالہ براؤن پر اٹھائیس سالہ پولیس اہلکار ڈیرین ولسن نے گولی چلائی تھی۔ براؤن کا خاندان اور ان کے حامی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ گولی چلانے والے پولیس اہلکار کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔