1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا سے خوفزدہ نہیں روس کی تجویز پر عمل کر رہے ہیں، صدر اسد

عدنان اسحاق12 ستمبر 2013

شام کے معاملے میں روسی سفارتکاری نے اثر دکھا ہی دیا ہے۔ شام نے کیمیائی عالمی برادری کے کنٹرول میں دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ روس کے ٹیلی وژن روسیا 24 پر صدر اسد نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ روس کی تجویز پر عمل کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19gh7
تصویر: Reuters

شامی صدر بشار الاسد نے روسی ٹیلی وژن سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیار عالمی برادری کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ وہ یہ اقدام امریکا کی جانب سے حملے کے خوف سے نہیں بلکہ روس کے کہنے پر اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول امریکا کی دھمکیوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے معاہدے کے لیے ایک دستاویز بھی اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اس سے قبل امریکی حکومت کے ترجمان جے کارنی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ صدر اسد کو حیلے بہانوں سے کام لینے نہیں دیا جائے گا:’’مجھے اندازہ ہے کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ مگر ہمیں تاخیر کرنے کی حکمت عملی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے اور یہ بہت اہم بھی ہے کہ صدر بشارالاسد کا احتساب کیا جائے‘‘۔

John Kerry vor Gespräch mit Sergej Lawrow in Genf
امریکی وزیر خارجہ جان کیری جنیوا میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیںتصویر: Reuters

روسیا 24 نے صدر اسد کے انٹرویو کا مخصوص حصہ ہی نشر کیا ہے۔ چینل کے مطابق مکمل انٹرویو جلد نشر کیا جائے گا۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری جنیوا میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ اس دوران دونوں وزرائے خارجہ شام کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کریں گے۔

ایک امریکی اہلکار کے مطابق واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ شام تمام کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیل عام کرے اور معائنہ کاروں کو ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کی اجازت دے۔ روسی منصوبے کی کچھ معلومات منظر عام پر بھی آ چکی ہیں۔ ان کے مطابق اس کے چار مختلف مراحل ہیں۔ پہلا یہ کہ شام کیمیائی ہتھیاروں کو ممنوعہ قرار دینے والے عالمی ادارے کا رکن بنے گا۔ اس کے بعد ان کی تیاری اور جن مقامات پر انہیں رکھا گیا ہے، ان کی تفصیل فراہم کرے گا۔ تیسرا مرحلہ معائنہ کاروں کو دعوت دینے کا ہے جبکہ آخری مرحلے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ ان ہتھیاروں کو کب اور کیسے تلف کیا جائے۔

ماضی میں شام نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کہ اس کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔ اسی طرح شام نےاس طرح کے کسی بھی عالمی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ جہاں ایک جانب شام کے موضوع پر سفارت کار جنیوا میں جمع ہیں، وہاں خود شام کے اندر سرکاری دستوں کی جانب سے ملک کے شمالی حصے میں ایک ہسپتال پر بمباری کی اطلاعات ہیں۔ باغیوں کے مطابق اس حملے میں گیارہ عام شہری اور ایک ڈاکٹر ہلاک ہو گیا ہے۔