1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: دو ماہ تک گرین کارڈ نہ جاری کرنے کا فیصلہ

22 اپریل 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں مستقل رہائش کے لیے جو گرین کارڈ فراہم کیا جاتا ہے اسے آئندہ 60 روز کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اس سے معاشی مندی کے ماحول میڑ امریکیوں کو روز گار کے مواقع مل سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/3bFC2
USA | Coronavirus | US-Präsident Donald Trump
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Brandon

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ گرین کارڈ، یا مستقل رہائشی کارڈ، کو، بعض استثنی کے ساتھ جن کی تفصیل ابھی نہیں بتائی گئی ہے،  کم از کم 60 روز کے لیے معطل کیا جا رہا ہے۔

امیگریشن سے متعلق صدر ٹرمپ کے احکامات ان افراد پر نافذ نہیں ہوں گے جو امریکا میں عارضی طور پرداخل ہورہے ہوں گے۔

اقوام متحدہ میں عالمی ادارہ صحت سے متعلق ایک قرارداد کی حمایت کے بعد امریکا نے اس سے اپنے آپ کو الگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب پیدا ہونے والے معاشی بحران کی زد میں آنے والے کمزور ممالک کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز امیگریشن کو عارضی طور پر معطل کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس کی تفصیلات بتدریج سامنے آرہی ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے آئندہ کم سے کم 60 روز کے لیے گرین کارڈ جاری کرنے پر روک لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔گرین کارڈ حاصل کرنے والے شخص کو امریکا میں مستقل رہائش اور کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر مستقبل میں امریکی شہریت حاصل کرنے کا راستہ بھی ہموار ہوجاتا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک ایگزیکیٹیو آرڈر پر جلد ہی دستخط کرنے والے ہیں۔

امریکا میں لاک ڈاؤن کے دوران کاروبار اور تجارتی مراکز کے بند ہونے کے سبب بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ غلط اور نا انصافی ہوگی کہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جن امریکی شہریوں کو ملازمتوں سے نکالا گیا ہے ان کی خالی جگہوں پر باہر سے آنے والوں کو رکھا جائے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سب سے پہلے امریکی ورکروں کا خیال رکھیں۔''

ملیریا کی دوا 'ہائیڈرو کلورو کوئین' کووڈ 19 میں ناکام؟

 امریکی حکومت کے فنڈز سے چلنے والے ایک ادارے نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ ملیریا کے لیے معروف دوا 'ہائیڈرو کلورو کوئین'، جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے بہتر ہے، اس علاج میں موثر ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ادارے کا

 کہنا ہے کہ شاید اس دوا کی وجہ سے متاثرین کی زیادہ موتیں ہوئی ہیں۔ اس کے مطابق جن افراد کو صرف یہی دوا دی گئی ان کی موت کی شرح 28 فیصد ہے۔

 اس کے برعکس اس دوا کے ساتھ ایتریموفوسین نامی ایٹنی بائیوٹک جن افراد کو دی گئی تو ان کی موت کی شرح صرف بائیس فیصد رہی۔ لیکن کورونا سے جن متاثرین کو بہترین دیکھ بھال ملا ان میں صرف گیارہ فیصد اموات ہی درج کی گئی ہیں۔ حالانکہ یہ تحقیق ایک خاص دائرے تک محدود تھی، جس پر اب بھی کام چل رہا ہے اور اس پر نظر ثانی کا کام بھی باقی ہے۔

ڈبلیو ایچ او سے امریکا کی ناراضگی برقرار 

اقوام متحد میں عالمی ادارہ صحت  ڈبلیو ایچ او سے متعلق گزشتہ روز متفقہ طور پر جو قرارداد منظور کی گئی تھی امریکا نے اس سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس قرارداد میں کورونا وائرس کی وبا کی لڑائی میں ڈبلیو ایچ او کے 'اہم قائدانہ کردار کی بات کرتے ہوئے اس کی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا جس کی امریکا سمیت دنیا کے 193 ممالک نے حمایت کی تھی۔  یو این میں امریکی مندوب نے ڈبلیوایچ او کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے سامنے آنے کے بعد سے ادارہ کے طور طریقوں کے تئیں اسے تشویش لاحق ہے۔ امریکی صدر ڈبلیو ایچ او پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اس کی فنڈنگ روکنے کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ 

USA Coronavirus
نیو یارک میں اب کورونا وائرس کے متاثرین میں بتدریج کمی درج کی جا رہی ہےتصویر: AFP/A. Weiss

اس دوران نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو نے کا کہنا ہے کہ چونکہ اب کورونا وائرس کے متاثرین میں کمی درج کی جارہی ہے، مینہیٹن میں تعینات امریکی بحریہ کے جہاز کو اب ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس جہاز میں 178 کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔  گورنر کا کہنا تھا، ''اس سے ہمیں آسانیاں ہوئیں لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے، تو اگر کہیں دوسری جگہ اسے تعینات کرنے کی ضرورت ہو تو اسے لے جا سکتے ہیں۔'' امریکی ریاست نیو یارک کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جہاں  پچیس ہزار سے زیادہ افراد اس وبا سے متاثر ہوئے اور14828 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

چین کے خلاف مقدمہ درج   

  اس دوران امریکی ریاست میزوری نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں ناکامی کے لیے چین کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔  ریاست کے اٹارنی جنرل ایرک اشمٹ کا الزام ہے کہ دسمبر سے 23 جنوری کے دوران چین نے کورونا وائرس کی وبا کی سنگینی کو دنیا سے چھپانے کی کوشش کی اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں اس وائرس کی منتقلی کے تعلق سے جو خطرات تھے اس پر بھی خاموشی اختیار کی۔  حالانکہ چین ایک خود مختار ملک ہے اور اس طرح کے مقدمات سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس پر کوئی ہرجانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ 

اس دوران امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی نے کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر فیڈرل فنڈز سے ملنے والی ریلیف رقم کو واپس کرنے سے منع کر دیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ چونکہ یونیورسٹی کے پاس پہلے سے ہی اربوں ڈالر کے فنڈز ہیں اس لیے اسے اس کی ضرورت نہیں اور اسے

  رقم واپس کر دینا چاہیے تاکہ اس کا استعمال کاوبار اور تجارت کی بحالی پر کیا جا سکے۔  یونیورسٹی نے اس بات کا اعتراف کیاکہ اسے اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے حال ہی میں تقریبا چھیاسی لاکھ ڈالر کا فنڈ ملا ہے تاہم وہ اسے واپس نہیں کرے گی اور جس مقصد کے لیے وہ اسی میں استعمال کی جائے گی۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)  

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں