امجد صابری کا قتل، کراچی میں امن کے دعووں کی قلعی کھل گئی
23 جون 2016دہشت گردوں نے صرف تین روز کے اندر اندر پہلے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغوا کیا اور پھر بدھ بائیس جون کے روز شہرکی ایک انتہائی مصروف شاہراہ پر امجد صابری کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اس طرح یہ جرائم امن عامہ کے ذمے دار اداروں اور اہلکاروں کے لیے کھلا چیلنج بن گئے ہیں۔
امجد صابری کے قتل کو ایک پورا دن گزر جانے کے بعد بھی پولیس قاتلوں کے تعاقب میں واردات کے عینی شاہدین کے بیانات اور ملزم کا خاکہ تیار کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
کراچی پولیس کے ڈی آئی جی ویسٹ زون ذوالفقار لاڑک نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امجد صابری نے پولیس کو کسی قسم کی دھمکی کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا تھا اور بظاہر قتل کی یہ واردات ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کے اغواء اور امجد صابری کے قتل میں کوئی باہمی رابطہ نظر نہیں آتا البتہ ان دونوں وارداتوں سے شہر میں خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
امجد صابری کے قتل سے صرف دو روز قبل چند کار سوار مسلح افراد کلفٹن کے علاقے میں قائم ایک سپر مارکیٹ کی پارکنگ سے صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کو دن دیہاڑے اغوا کر کے لے گئے تھے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واردات دوپہر ڈھائی سے تین بجے کے درمیان ہوئی اور پولیس کو رات نو بج کر دس منٹ پر اطلاع دی گئی۔ لیکن ذرائع کے مطابق حساس اداروں کی جانب سے کلفٹن تین تلوار سے دو تلوار تک کے مختصر علاقے میں دھماکے کی پیشگی اطلاع پولیس کو فراہم کی گئی تھی اور اویس شاہ کو بھی اس علاقے کے عین وسط سے اغوا کیا گیا جبکہ اغوا کی واردات کے فوراﹰ بعد ایک شخص نے ایک نوجوان کے اغوا کیے جانے کی اطلاع دی تھی۔ پولیس مگر تب چوکنا ہوئی جب اسے یہ علم ہوا کہ مغوی نوجوان صوبائی چیف جسٹس کا بیٹا ہے۔
کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے اویس شاہ کی بازیابی کے لیے سینیئر افسران پر مشتمل ایک آٹھ رکنی ٹیم تشکیل دی ہے مگر ٹیم میں شامل ایک رکن ایس ایس پی ساؤتھ سمیت دو افسران کو وزیر اعلیٰ سندھ نے لاپرواہی کے الزام میں ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ لاپرواہی کے الزام میں عہدے سے ہٹایا جانے والا کوئی افسر تحقیقات میں کیا اور کیسے معاونت کرسکتا ہے؟
تجزیہ کاروں کی رائے میں کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن آہستہ آہستہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور دہشت گردوں کے گروہ دوبارہ سرگرم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
کراچی میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے لیے کام کرنے والے سینیئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں کہ آپریشن کی کامیابی کو طویل المدتی بنانے کے لیے پولیس کو دوبارہ ایک فعال ادارہ بنانا ہوگا اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مستقل امن کے لیے انٹیلیجنس نظام کو بھی مستکم کرنا ہوگا مگر امن کی جزوی بحالی ہوتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے توجہ کرپشن کی سرکوبی سمیت دیگر امور پر مرکوز کر لی اور دہشت گردودں کو دوبارہ پنپنے کا موقع مل گیا اور اس بار انہوں نے دو ایسے وار کیے کہ تین سال کی محنت کے بعد شہر میں ختم ہوتی خوف کی فضا یک دم دوبارہ قائم ہوتی دکھائی دینے لگی۔
مبصرین کی رائے میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی بیٹے کے اغوا کے بعد اغوا کاروں کی جانب سے تاحال کوئی رابطہ نہ ہونا زیادہ تشویش ناک بات ہے۔ اس سے شبہ یہی ہوتا ہے کہ اغوا کاروں کا مقصد شاید تاوان کا حصول نہیں جبکہ امجد صابری کا قتل معاشرے میں ہم آہنگی کی بحال ہوتی فضا کو ایک دھچکا لگانا ہے کیونکہ ایک ایسے غیر متنازعہ فنکار کو جو تمام فرقوں میں یکساں مقبول ہو اور قطعی بے ضرر ہو، اسے قتل کرنا کسی ذاتی تنازعے کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔
امجد صابری ماضی کے معروف قوال غلام فرید صابری کے بیٹے تھے اور وہ پاکستان میں صوفی ازم کے حق میں اٹھنے والی ایک طاقت ور آواز بھی تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے قتل مذہبی انتہا پسند ملوث ہوسکتے ہیں۔
امجد صابری کی نماز جنازہ آج جمعرات تئیس جون کو کراچی میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں سوگوار افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں ایک طویل جلوس کی صورت میں ان کا جسد خاکی پاپوش نگر کے مقامی قبرستان لے جایا گیا، جہاں امجد صابری کی میت کو ان کے والد کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔