1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ کمزور ليکن دہشت گردی نئے روپ دھارتی ہوئی، رپورٹ

عاصم سلیم1 مئی 2014

عالمی دہشت گردی سے متعلق جاری کردہ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق اگرچہ بين الاقوامی کوششوں کے نتيجے ميں القاعدہ کافی کمزور ہو چکی ہے تاہم اُس سے منسلک ديگر کئی تنظيموں نے مشرق وسطی اور افريقہ ميں اپنی کارروائياں بڑھا دی ہيں۔

https://p.dw.com/p/1BrpS
تصویر: Issouf Sanogo/AFP/Getty Images

امريکی محکمہ خارجہ کی طرف سے بدھ تيس اپريل کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ايمن الظواہری کی قيادت ميں دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کے مرکزی دھڑے کو اگرچہ کافی حد تک کمزور بنا ديا گيا ہے تاہم اُس سے منسلک ديگر کئی گروہ کافی خودمختار اور جارحانہ ہوتے جا رہے ہيں۔ پاکستانی و افغان طالبان اور حقانی نيٹ ورک جيسے گروہ افغانستان اور پاکستان ميں ملکی اور امريکی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہيں۔ پاکستان ميں فعال لشکر طيبہ نامی ايک گروپ امريکی مفادات و تنصيبات کو ’حملوں کے ليے جائز اہداف‘ قرار ديتا ہے۔

Internetvideo Al-Kaida Ayman al-Zawahiri 2013 ARCHIVBILD
دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا سربراہ ايمن الظواہریتصویر: picture-alliance/dpa

رپورٹ ميں مزيد لکھا ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افريقی ممالک ميں کمزور حکومتوں اور عدم استحکام کی وجہ سے القاعدہ کے حامی گروپ اور اِسی طرز کی انتہاپسندانہ سوچ کی حامل دیگر تنظيموں نے اپنی کارروائيوں کا دائرہ کار بڑھا ديا ہے۔ رپورٹ کے مطابق يہ عمل بالخصوص يمن، شام، عراق، شمالی افريقہ اور صوماليہ ميں بڑھ رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق دنيا بھر سے ہزاروں جنگجوؤں نے شام کا رخ کيا، جہاں صدر بشار الاسد کے خلاف مسلح تحريک جاری ہے۔ اِن ميں کئی جنگجو انگريزی زبان بھی بول سکتے ہيں۔ جنگجوؤں نے اسد انتظاميہ کے خلاف لڑنے والے گروپوں کے ساتھ مل کر لڑائی کی۔ رپورٹ کے مطابق ايسے کئی افراد کافی پر تشدد انتہا پسند گروہوں کا حصہ بنے اور امريکا و ديگر مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ يہ جنگجو اپنے اپنے ملکوں میں واپس جا کر داخلی سلامتی کے ليے خطرہ بن سکتے ہیں۔

رپورٹ ميں لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق 2013ء ميں يورپی ملک ڈنمارک سے 90 جنگجوؤں نے شام کا رخ اختيار کيا جبکہ اسی دوران فرانس سے 184، جرمنی سے 240، ناروے سے تيس تا چاليس، بيلجيم سے ايک سو اور دو سو کے درميان اور سويڈن سے 75 جنگجو شام گئے۔ برطانوی حکومت کے اندازوں کے مطابق اس کے کم از کم چار سو شہری کسی نہ کسی وقت شامی خانہ جنگی کا حصہ بن چکے ہيں۔ امريکی محکمہ خارجہ کی جانب سے يہ بھی کہا گيا ہے کہ 2012ء سے يمن، بلغاريہ، تھائی لينڈ اور ايران سے منسلک چند اداروں ميں اضافی سرگرمياں ديکھی گئی ہيں۔