1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ اور طالبان پاکستانی عسکریت پسندوں کی مدد کے طلبگار

3 جنوری 2012

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ القاعدہ اور افغان طالبان جنگجوؤں کے اہم نمائندوں نے پاکستانی عسکریت پسندوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں اُن سے افغانستان میں جاری مسلح جدوجہد میں مدد کی درخواست کی ہے۔

https://p.dw.com/p/13dBR
حکیم اللہ محسود اور ساتھی
حکیم اللہ محسود اور ساتھیتصویر: picture alliance / dpa

اِس امریکی خبر رساں ادارے کی جانب سے پیر کو جاری کیے جانے والے اِس جائزے میں عسکریت پسند کمانڈروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ ملاقاتیں نومبر اور دسمبر میں پاکستان کے قبائلی علاقے میں افغان طالبان کی رہنما کونسل کی درخواست پر منظم کی گئیں۔ ان غیر متوقع ملاقاتوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں پر زور دیا گیا کہ وہ اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغانستان میں امریکی قیادت میں سرگرم عمل اَفواج کے خلاف جنگ میں القاعدہ اور افغان طالبان کی مدد کریں۔

ان ملاقاتوں کے موقع پر موجود ایک عسکریت پسند کمانڈر کے مطابق القاعدہ کے سینئر کمانڈر ابو یحییٰ اللیبی نے گیارہ دسمبر کی ایک میٹنگ میں پاکستانی جنگجوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’خدا کے لیے، اپنے تمام اختلافات بھول جاؤ اور ہمیں افغانستان میں امریکہ کے خلاف بھرپور جنگ لڑنے کے لیے جنگجو فراہم کرو۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ان جنگجوؤں کی ضرورت مارچ میں برف پگھلنے کے بعد لڑائی کے اگے مرحلے کے آغاز پر پڑے گی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے اِس جائزے کے مطابق پاکستانی عسکریت پسندوں کے درمیان اِس بات پر اختلافات پائے جاتے ہیں کہ اُن کی جدوجہد کا محور و مرکز کیا ہونا چاہیے۔ پاکستانی طالبان اپنے کچھ جنگجو افغانستان بھی بھیجتے رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر اُن کی توجہ اپنی پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے پر مرکوز رہی ہے۔ پاکستانی قبائلی علاقے میں موجود کچھ دیگر پاکستانی گروپوں نے اپنے حملوں کا مرکز صرف اور صرف افغانستان میں غیر ملکی افواج کو بنائے رکھا ہے۔

28 جولائی 2011ء: پاکستانی تحریک طالبان کے ایک کمانڈر ولی الرحمان (درمیان میں) جنوبی وزیرستان میں شوال کے مقام پر ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے
28 جولائی 2011ء: پاکستانی تحریک طالبان کے ایک کمانڈر ولی الرحمان (درمیان میں) جنوبی وزیرستان میں شوال کے مقام پر ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےتصویر: AP

پاکستانی تحریک طالبان تقریباً چالیس مزاحمتی گروپوں پر مشتمل ایک مرکزی تنظیم ہے، جو سن 2007ء میں قائم کی گئی تھی۔ پاکستانی فوج کی کارروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں میں اپنے کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کے نمائندے طاقت اور عہدوں کی کشمکش پر انتشار کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دریں اثناء یہ تنظیم ایک سو سے زیادہ چھوٹے چھوٹے یونٹوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اِس صورتحال کے باعث افغانستان میں برسرپیکار جنگجوؤں کے لیے پاکستان سے نئے عسکریت پسندوں کا حصول مشکل ہو جائے گا اور پاکستان میں اُنہیں دستیاب علاقے بھی محدود ہوتے چلے جائیں گے۔

پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے دو میٹنگز میں شرکت کی، ستائیس نومبر کو جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں اور گیارہ دسمبر کو شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں۔ احسان اللہ احسان کے مطابق ان ملاقاتوں میں محسود کے نائب ولی الرحمان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جنگ پر توجہ مرکوز کرنے والے دو کمانڈر مولوی نذیر اور گل بہادر بھی شریک ہوئے۔

پاک افغان سرحد کا ایک منظر
پاک افغان سرحد کا ایک منظرتصویر: AP

اِن میں افغان عسکریت پسند سراج الدین حقانی بھی موجود تھے، جن کا ہیڈکوارٹر شمالی وزیرستان میں ہے۔ افغانستان سے اِن ملاقاتوں میں شریک طالبان نمائندوں میں طالبان کے جانے پہچانے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور افغانستان میں 2009ء میں اغوا ہونے والے امریکی فوجی بو آر بیرگ ڈاہل کو حراست میں رکھنے کا دعویٰ کرنے والے مولوی سنگین بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے ایک کونسل کی تشکیل پر اتفاقِ رائے ہوا۔

گزشتہ دو روز کے دوران شمالی وزیرستان میں جاری کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں ایک پانچ رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کمیٹی ’اسلامی امارات افغانستان‘ کے ساتھ صلاح و مشورے سے بنائی گئی ہے۔ طالبان افغانستان کو یہی نام دیتے ہیں۔ پمفلٹ میں پاکستانی عسکریت پسندوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں آنے اور ’ناجائز ہلاکتوں یا اغوا برائے تاوان‘ سے باز رہنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

ایسا ایک پمفلٹ ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھی ملا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اگر کسی جنگجو کو کسی ناجائز قتل یا جرم میں ملوث پایا گیا تو وہ اِس کمیٹی کو جوابدہ ہو گا اور اُسے اسلامی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘۔

پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان کے مطابق پاکستانی عسکریت پسندوں نے افغانستان میں جنگ کے لیے جنگجو فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اِس کا مطلب پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں ہے:’’ہم پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنا جہاد جاری رکھیں گے۔‘‘

رپورٹ: ایسوسی ایٹڈ پریس / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں