1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

السیسی کی نئی کابینہ نے حلف اٹھا لیا

افسر اعوان17 جون 2014

مصری فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے نئے صدر عبدالفتح السیسی نے دارالحکومت قاہرہ میں واقع صدراتی محل میں اپنی نئی کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CKGo
تصویر: Reuters

نئی کابینہ کے ارکان نے آج ہی اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا ہے۔ مئی کے آخر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد السیسی نے آٹھ جون کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

نئی مصری کابینہ میں وزیرخارجہ سامح شُکری سمیت 13 نئے چہرے شامل ہیں۔ شُکری قبل ازیں واشنگٹن میں مصر کے سفیر رہ چکے ہیں۔ نئی حکومت میں چار خواتین سمیت 34 وزراء شامل کیے گئے ہیں۔ حکومت کی سربراہی وزیراعظم ابراہیم مہلب کر رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ ماہ تک عبوری حکومت کی بھی سربراہی کرتے رہے ہیں۔ عبدالفتح السیسی کی قیادت میں فوج کی طرف سے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مُرسی کی حکومت گزشتہ برس تین جولائی کو ختم کیے جانے کے بعد مہلب دوسرے عبوری وزیراعظم تھے۔

السیسی ملک کے سابق وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں فتح یاب ہونے کے بعد رواں ماہ جون میں ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر کرنے کے علاوہ مشکلات میں گھِری معیشت کی بہتری کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔ مصر کے سابق صدر اور کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والے حکمران حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے یہ ملک مسلسل سیاسی حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ عرب اسپرنگ کے نام سے جانی جانے والی تحریک کے نتیجے میں حُسنی مبارک کو 2011ء میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔

السیسی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسے لوگوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی جو حکومت اور مصریوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔ اس بات کا درپردہ اشارہ دراصل سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کی طرف تھا۔ یاد رہے کہ مُرسی کی حامی اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اور اس کے سینکڑوں حامیوں اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔

محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے حامیوں کی طرف سے دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ تاہم ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے دھرنوں میں شریک مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اخوان المسلمون کے سینکڑوں ارکان ہلاک ہوئے تھے جبکہ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ملکی کابینہ میں وزیر اطلاعات کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ دراصل ملک میں نئے بنائے گئے آئین کے تحت کیا گیا ہے جس میں ایک میڈیا اور پریس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ’ایک آزاد ادارے‘ کے قیام کا کہا گیا ہے۔

2011ء میں حُسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد فعالیت پسندوں اور میڈیا کے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی جانب سے وزارت اطلاعات اور سرکاری میڈیا کے خاتمے کے مطالبات سامنے آئے تھے۔ حُسنی مبارک کے بعد عبوری طور پر عنان اقتدار سنبھالنے والی ملٹری کونسل نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی تاہم بعد میں یہ وزارت دوبارہ بحال کر دی گئی تھی۔