اقوام متحدہ: فلسطینی رکنیت کی درخواست کو مسائل کا سامنا
4 نومبر 2011سلامتی کونسل کے ایک سفارت کار نے اس بات کی تصدیق کی کہ تینوں ملک ووٹ ڈالنے کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔ فلسطینیوں کی جانب سے اپنی ریاست کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں کو تازہ دھچکا ایسے وقت میں لگا ہے جب پیر کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یعنی یونیسکو نے فلسطین کی رکنیت قبول کر لی تھی۔
توقع ہے کہ فرانسیسی وزارت خارجہ جمعے کو اپنے فیصلے کا جواز پیش کرے گی۔ ادھر ایک برطانوی اہلکار نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ آئندہ بدھ کو لندن میں برطانوی پارلیمان کے سامنے برطانیہ کے ووٹ نہ ڈالنے کے فیصلے کی وضاحت کریں گے۔
برطانیہ اور فرانس کے مندوبین نے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کی فلسطینی رکنیت کی درخواست پر غور کرنے والے اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندے ریاض منصور سے ملاقات کی تھی۔ درخواست کے بارے میں کمیٹی کی رپورٹ آئندہ بدھ کو سلامتی کونسل کے تمام پندرہ اراکین میں تقسیم کی جائے گی۔ سلامتی کونسل میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے رکنیت کی کسی بھی درخواست کے لیے کم از کم نو ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کا مؤقف ہے کہ کسی فلسطینی ریاست پر اتفاق کے لیے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات ہونے چاہئیں۔
سلامتی کونسل کے چھ رکن ممالک برازیل، چین، بھارت، لبنان، روس اور جنوبی افریقہ نے فلسطینی درخواست کی کھلے عام حمایت کی ہے۔ جرمنی نے ابھی اپنے مؤقف کا اظہار نہیں کیا مگر سفارت کاروں کے بقول توقع ہے کہ اس کا ووٹ انکار میں ہو گا۔ پرتگال کے بارے میں بھی یہی امید ہے جبکہ بوسنیا کے تین نسلی رہنما ووٹ ڈالنے کے فیصلے پر تقسیم ہیں۔
تاہم ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ نائیجیریا اور گیبون کا جھکاؤ بظاہر فلسطینیوں کی طرف ہے۔ فلسطینی سفیر نے سلامتی کونسل پر یونیسکو کے فیصلے کے بعد اسرائیل کے انتقامی اقدامات کی مذمت کرنے کے لیے زور دیا تھا۔ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں دو ہزار نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دینے کے علاوہ ملک میں سے گزرنے والے فلسطینی سامان کے محصولات کی ادائیگی بھی روک دی ہے۔
یونیسکو کے فیصلے کے بعد امریکہ نے بھی اس ادارے کی فنڈنگ روک دی تھی۔ محمود عباس کی عالمی ادارے میں درخواست کے ردعمل میں امریکہ نے فلسطین کی 200 ملین ڈالر کی اقتصادی امداد بھی بند کر رکھی ہے۔
ادھر فلسطینی انتظامیہ کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ فلسطینی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے اور وہ عالمی ادارے میں اپنا درجہ بڑھ کر مبصر رکن کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے۔ راملہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مبصر درجہ ہی حاصل کرنا تھا تو یہ کام کافی پہلے ہو سکتا تھا۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس